اشاعتیں

انصاف والے معاشرے

تصویر
پرسوں سے تمام عرب میڈیا کی ٹاپ اسٹوری بنے 26 سالہ  محمد بن مرسل کا دل گداز واقعہ سُنیے اس واقعہ کا آخری پہلو ہم سب کیلیے ایک بڑی روشن مثال ہے۔۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ‏نوجوان محمد بن مرسل یمن بارڈر کے ساتھ متصل سعودی عرب کے تاریخی شہر نجران کا رہنے والا تھا  معمولی سی تلخی کے باعث اس کے ہاتھ سے اسکے ایک کزن کا قتل ہو گیا۔۔ اسے جیل ہوگئی ۔۔ جیل میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد عدالت نے قصاص میں اسکی گردن اڑانے کا حکم سنا دیا، البتہ شرعی طور پر مقتول کے ورثاء  دیت لینے یا فی سبیل اللہ معاف کرنے کا اختیار بھی محفوظ رکھتے تھے۔۔ محمد مرسل کے قبیلے آل رزق کے بچوں ،بزرگوں اور نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مقتول کے قبیلہ آل صنیج کے سامنے معافی کی درخواست رکھی جائے وہ چاہیں تو دیت لیں ، وہ چاہیں تو معاف کریں۔۔  یہ درخواست رکھنے کا انداز اتنا منفرد تھا،  اتنی عاجزی اور فریاد اپنے اندر سموۓ ہوۓ تھا کہ پورے عرب میڈیا کا یہ ٹاپ اسٹوری بن گیا۔۔ محمد بن مرسل کے قبیلے کے چھوٹے بڑے اور بزرگ سب مقتول کے دروازے پر پہنچ گیے ،مقتول کے ورثاء کو بلایا گیا، ان کے سامنے قبیلے کے سرداروں ، شیخوں ، ...

پہلی ذی الحج کاٸنات کی عظیم شادی کامنظر

تصویر
  حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور پاک بی بی حضرت فاطمہ الزہرا ع کی شادی ہجرت کے دوسرے سال ذی الحجہ کی پہلی تاریخ میں ہوئی جبکہ آپ دونوں کے درمیان نکاح کے صیغے پیغمبر اکرمؐ نے پہلے ہی جاری کر دیئے تھے۔ بعض محققین کے مطابق عقد کے دس مہینے بعد رخصتی ہوئی تھی۔ حدیث کی کتابوں کے مطابق حضرت علیؑ سے پہلے مہاجرین و انصار میں سے کئی شخصیات نے پیغمبر اکرمؐ سے حضرت فاطمہؑ کا رشتہ مانگا تھا لیکن پیغمبر اکرمؐ نے ان رشتوں کی مخالفت فرمائی۔ حضرت زہراؑ کا حق مہر 400 سے 500 درہم کے درمیان تھا۔ احادیث کے مطابق حضرت علیؑ  نے اپنی زرہ بیچ کر بی بی پاک حضرت زہراؑ کا حق مہر ادا کیا۔ آپ دونوں کی شادی کی مناسبت سے پیغمبر خداؐ نے مدینہ کے لوگوں کو ولیمہ دیا۔ رخصتی کے وقت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ امام علیؑ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے دعا فرمایا: خدایا ان کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک اور ان کی نسل کو مبارک قرار دے۔ تاریخی مآخذ کے مطابق حضرت زہراءؑ کا حق مہر 400 سے 500 درہم کے درمیان تھا۔  امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ ان میں سے کوئی ایک چیز ...

مسجداقصیٰ پر صیہونی حملہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مجرمانہ خاموشی

تصویر
 *اے غافل مسلمانو۔۔* !  اے رمضان کریم میں بھی کفار کے گانوں پر تھرکنے اور لب ہلانے والے نام نہاد مسلمانو۔۔۔  آخر کب تک شیطان کا آلہ کار بن کر غفلت میں پڑے رہوگے؟ مسجد اقصیٰ ایک بار پھر مسلمانوں کے خون سے رنگین ہے۔۔  ناجاٸز قابض صیہونی دجالی پیروکاروں نے ایک بار پھر رمضان کریم کے مہینے عبادت کرتے فلسطین کے غیور نہتے مسلمانوں پر حملہ کیا ہے۔ اس بار انکا نشانہ صرف نوجوان نہیں بلکہ خصوصی طور پر مسلمان بچے اور مسلم خواتین ہیں۔ ہاۓ کہاں ہے پیارے آقا صلى الله عليه واله وسلم کی امت ؟؟ کہاں ہیں فاتح خیبر حیدر کرار ؓ کے نام لیوا؟؟  کہاں ہے خالدبن ولیدؓ کے پیروکار؟؟  کہاں ہیں ایوبی کے جانشین؟؟  کہاں ہیں سلطان عبدالحمید کے چاہنے والے ؟؟  کہاں ہیں ڈیڑھ ارب مسلمان؟؟؟  آخر مسلم امہ کے حکمران کیوں چپ سادھ کر بیٹھے ہیں؟ درحقیقت ان عیاش حکمرانوں کی یہی چپ یہود کی ہلاشیری ہے۔۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا اے طاٸرلاہوتی اس رزق سے موت اچھی، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی میں لعنت بھیجتا ہوں اس امداد پر جو میرے ملک کے حکمران یہودو نصاری سے ملک چلانے کے نام پہ لیتے...

جمہوری نظام اور شرعی نظام کا فرق

 شرعی اور جمہوری نظام کا فرق۔۔ جب شریعت محمدی ریاست مدینہ کی صورت نافض العمل ہوٸی تو دنیا نے دیکھا کہ ریاست مدینہ میں زکوٰة لینے والا ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔ اور اب ہمارے ہاں۔۔؟ یاد رہے شرعی نظام میں زکوٰة صرف صاحبِ حیثیت پر فرض ہے جبکہ  جمہوری نظام میں ٹیکس اُن پر بھی فرض ہے جن کےپاس کفن کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔  یہی فرق ہے شرعی اور جمہوری نظام کا۔ یاد رکھیں۔! پاکستان کو اگر صحیح معنوں میں پاکستان بنانا ہے تو شرعی نظام اسلامی صدارتی نظام کی صورت نافض کرنا ہوگا۔ ورنہ ملک غربت کی لیکر سے اوپر کبھی نہیں اُٹھ پاۓ گا۔۔  *محمدطاہرسرویا بلاگر* soroyatahir@gmail.com

دیس کے مہاجر

تصویر
 کراچی میں ایک بار پھر وہی پرانی سیاست شروع ہوچکی ہے وہی جوڑ توڑ اور وہی مہاجر مہاجر کے لسانی ، نسلی تعصب سے بھرپور نعرے۔۔ کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ پاکستان معرض وجود میں آۓ 75 سال ہوچکے، اگلی نسلیں بھی قبرستان کے دہانے پر بیٹھی ہیں۔ مگر پھر بھی ہم اپنے وطن میں اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں۔۔ جب صحابہ کرام رض نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو وہ مہاجرین کہلاۓ لیکن بعد ازاں مدینے میں انکی جو اولاد پیدا ہوٸی وہ مہاجر نہیں اہل مدینہ کہلاٸی۔ اسی طرح برصغیر میں مسلمانوں کیلیے الگ وطن پاکستان بنایا گیا اور یہاں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے پہنچی۔  دوران ہجرت ہندو، سکھ بلواٸیوں نے قافلوں پر حملے کرکے لاکھوں مسلمان شہید کیے مسلمان عورتوں ، لڑکیوں کے ریپ کیے۔ ظلم کی انتہا کی گٸی۔ اس پر سوال زہن میں آتا ہے کہ کیا وہ لاکھوں قربانیاں دینے والے ہمارے بزرگ صرف کراچی کے مہاجر مہاجر کا راگ الاپنے والوں کے باپ دادا تھے؟؟  تو جواب ہے کہ بالکل نہیں۔۔ مسلمانوں کے اس قتل عام میں سب سے زیادہ تعداد پنجابی مسلمان مہاجرین کی تھی۔ جن کی اکثریت پنجاب ہی میں آباد ہوٸی۔ لیکن آپ نے کبھی بھی پنجاب کے ...

میڈیا، سوشل میڈیا پر روبیضہ کی تباہ کاریاں

تصویر
 *میڈیا ، سوشل میڈیا پر روبیضہ کی تباہ کاریاں*  پاکستان میں کچھ سالوں سے جھوٹے پروپیگنڈوں اور بہتان تراشیوں میں بہت تیزی آٸی ہے۔ اسکا بڑا سبب ہمارے لوگوں کی اکثریت ہے جو شخصیت پرستی میں اتنا آگے نکل جاتی ہے کہ اس شخصیت کے مخالفین کے اچھے کاموں کو بھی بُراٸی ثابت کرنے پر تُل جاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو بغیر کسی تحقیق کے پروپیگنڈے میں پھنس کر اسے آگے پھیلا کر کامیاب کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا و فریب کے ہوں گے۔ سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں روبیضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا روبیضہ کون؟  فرمایا گھٹیا (فاسق و فاجر) لوگ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات پر بولا کریں گے۔ (مسند احمد 1332، مسند ابی یعلی 3715، السنن الواردۃ فی الفتن) آجکل کے دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی اکثریت روبیضہ کی تشریح پر پوری اترتی ہے۔  یہی روبیضہ اصل سچ، اصل حقیقت اور صحیح تصویر پیش کرنے والے کو اس قدر...

نٸے سال کا پیغام

تصویر
نیا سال آیا ،کروڑہا سال گزر گٸے اور بھی آٸیں گے لیکن ، گفتارِ توکل را ، لا غالب الا اللہ معراجِ رجا ہے کیا ، لا غالب الا اللہ فرعون ہو کہ قیصر دارا ہو سکندر ہو مغلوبِ یدِ بیضا ، لا غالب الا اللہ پامرد صفت ہونا ہے شرطِ جہاں بانی زر جہدِ مسلسل کا ، لا غالب الا اللہ ملت کی تباہی سے مجروح تو ہوں لیکن کہتا ہے دلِ بینا ، لا غالب الا اللہ غرناطہ کے منبر سے آتی ہے صدا اب تک ماضی ہو کہ ہو فردا ، لا غالب الا اللہ شیوا کو اگر پھر سے سودا ہے خدائی کا شاہد ہے لبِ جمنا ، لا غالب الا اللہ آزر کے تراشے ہیں جمہور و امارت سب اٹھ مردِ خلیل آسا ، لا غالب الا اللہ (محمدعبداللہ علی) اللہ کے سوا کسی کا کچھ بھی غلبہ نہیں ، صرف وہی قادر مطلق غالب و دانا  ہے جو جب چاہیے ہلکی سی کُن کے ساتھ ۔ تقدیریں بدل دیتا ہے💖  *محمدطاہرسرویا بلاگر*

بِکھری ملّت کا خمیازہ

تصویر
 *بکھری ملّت کا خمیازہ*  وطن عزیز میں دہشتگرد دوبارہ ایکٹیو ہو چکے ہیں۔ جو آۓ روز ہماری سیکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہیں۔ ہم روزانہ اپنے وطن کے شہید بیٹوں کے جسد خاکی اُٹھتے دیکھ رہے ہیں۔ اسکی ایک اہم وجہ خطے سے امریکہ کے نکلتے ہی بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانا اور افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا بھی ہے۔ ہم پاکستانی اپنا پاٶں خود کلہاڑی پہ مارتے ہیں۔ یاد رکھیں۔۔! کسی ملک پر قابض ہونے کیلیے دشمن یا مخالف کا پرانا ہتھکنڈا ہے کہ سب سے پہلے اندرونی طور پر اس ملک کو تباہ کیا جاتا ہے۔ اندرونی طور پر تباہ کرنے کیلیے وہاں کی عوام کو گروہوں میں بدلنے کی ہر ممکن کوششیں کی جاتی ہے اور اسکے بعد ہر گروہ کو دوسرے گروہ کا جانی دشمن بناکر ملک کے محافظوں تک پہ قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس سے ملک اندرونی طور پر کمزور ہوجانے کے ساتھ ساتھ بیرونی طرف سے بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد گروہوں میں بٹے اس ملک میں ایک گروہ کو ساتھ ملا کر اس ملک پہ قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ پاکستان بہت عرصہ سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہے لیکن عوام کا ایک بڑا حصہ پھر بھی اپنے محافظوں کے پیچھے موجود رہتا تھا لی...

پاکستانی صحافت کا معیار

تصویر
جھوٹ کیسے پروان چڑھتا ہے۔۔  *جانیے*  ایک دفعہ معروف صحافی اینکر جاوید چوھدری کا گڑھا ہوا ایک جھوٹ خوب واٸرل ہوا کہ ” 1963 میں پاکستان نے تباہ حال جرمنی کو بیس سال کیلیے 12 کروڑ قرض دیا تھا جس پر جرمنی کے چانسلر نے خط لکھ کر شکریہ ادا کیا تھا، آج جرمنی دنیا کی چوتھی معیشت ہے اور پاکستان کے ہاتھ میں کشکول ہے“ جس پر پروپیگنڈا مشینیں آن ہوٸیں تو کچھ لکیر کے فقیر صحافیوں نے اس پر جذبات سے بھرپور کالم تک لکھ مارے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اُس وقت کے صدرِ پاکستان نے جرمنی کو قرض دیا نہیں، بلکہ جرمنی سے قرض لیا تھا اور جرمنی کو خط لِکھ کر شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ یہ پڑی ہے ہماری صحافت اور ایسے ہیں پاکستانی صحافت کے سُرخیل۔۔۔  *محمدطاہرسرویا بلاگر* soroyatahir@gmail.com  

اصل حدف

تصویر
  *اصل حدف*  باشعور پاکستانیت کے علمبردار ضرور پڑھیں۔ پاکستان میں بےہنگم مہنگاٸی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ مہنگاٸی کی پیشن گوٸیاں بھی کی جارہی ہیں۔ عمران خان نے جو بند پڑی صنعتیں دوبارہ چلواٸی تھیں سب کی سب بند ہو چکی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو لیٹ کیا جانے لگا ہے یہاں تک کہ ڈیڑھ ڈیڑھ ماہ تک تنخواہیں روک کر سرکاری ملازمین کی بھی چیخیں نکلواٸی جارہی ہیں۔ ملک کو بُھوک و افلاس میں لپیٹنے کی کامیاب کوششیں جاری ہیں۔ ملک سے ڈالرز تک غاٸب کروا کر اُسکے ڈھنڈورے تک پِیٹ دیے گٸے ہیں۔ رہی سہی کسر دوبارہ شروع ہونے والی دہشتگردی نکال رہی ہے۔ جسمیں صرف غریب عوام اور انہی کے بچے جو مختلف سیکیورٹی اداروں میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں، دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اور کیسے ہورہا ہے؟  یہ سب اسلیے ہو رہا ہے کہ پاکستانی عوام کے سامنے امریکہ کو پالنہار ثابت کرکے عوام کے دِلوں سے امریکہ کی نفرت نکال کر اُسکا شکرگزار بنایا جاسکے۔ اور اسطرح امریکہ بہادر کے کٹھپتلی سدابہار پاکستانیوں پر سواری کرسکیں۔ اور یہ سب کچھ اس طرح مینیج کیا گیا ہے کہ مہ...

حرام سے حلال ہونے تک

تصویر
             _افسانہ_ اینٹوں کے بَھٹے پہ کام کرنے والا ماجھو ، پیڈلوں پر تیز تیز پیر مارتا ساٸیکل دوڑاۓ جارہا تھا۔  جمعرات کی شام تھی اور آج ہر جمعرات کی طرح اس نے بَھٹے کے منشی سے اپنی سات دِنوں کی محنت کے پیسے وصول کیے تھے۔ وہ انجانے خوف کے ساتھ تیز ساٸیکل چلاتا جا رہا تھا کہ اچانک اسے سامنے پولیس کی گاڑی نظر آٸی۔ پولیس کی گاڑی دیکھ کر اُسے خوف کا جھٹکا لگا اور اس نے لاشعوری طور پر ساٸیکل سڑک سے اتار کر کھیتوں کی جانب موڑ دی۔ تھوڑی دیر بعد ہی پولیس کے دو اہلکاروں نے اسے جا لیا اور اسے مارتے پیٹتے کھیتوں سے نکال لاۓ۔  ماجھو کی تلاشی لینے پر اس سے ہفتہ بھر کی کماٸی برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں نے ساٸیکل کے ہینڈل کے ساتھ بندھا ہوا ”سو روپے والا شراب کا شاپر “ بھی اُتار لیا۔  اےایس آٸی لیاقت شراب کا شاپر دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا اس نے کہا ” اوۓ کتے کیا تم کافر ہو؟ اوۓ لعنتی تم اتنی نجس چیز پیتے ہو ، اوۓ تم حرام چیز پیتے ہو؟؟ میں تم کو نہیں چھوڑوں گا “ ماجھو روتے ہوۓ مسلسل معافیاں مانگتا جارہا تھا۔۔ لیکن پولیس اہلکار تو جیسے بہرے ہ...

خطرناک شیطانی حربہ

تصویر
 *راہ مستقیم سے بھٹکانے والا خطرناک شیطانی حربہ*   آپ تنہاٸی میں جو سوچتے ہیں اور کرتے ہیں وہی آپکا اصل کردار ہوتا ہے۔ اگر آپ کو احساس ہے کہ آپکی تنہاٸی میں خدا اور اسکا ڈر بھی آپکے ساتھ ہے تو آپ وقت کے ولی بھی ہوسکتے ہیں۔  اوراگر آپ تنہاٸی میں اپنے آپ کو اکیلا سمجھتے ہیں کہ اب کوٸی نہیں دیکھ رہا تو آپ گمراہی کے راستے پر شتربے مہار ہوکر شیطان کے آلہ کار بھی ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کی تنہاٸی ہی آپکا کردار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آپ تنہا نہیں ہوتے آپ کے ساتھ آپکی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب آپکا خالق موجود رہتا ہے جو اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے  وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚ ۖ وَنَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ   “ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں“ ایک بات پَلَّے سے باندھ لیں تنہائی میں ﷲ تعالیٰ کو فراموش کرکے اُسکی حرمتوں کو پامال کرنے اور بےخوف وخطر ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں میں ...

افسر شاہی ، منصب اعلیٰ اور ماتحتان

تصویر
  *منصب اعلیٰ کے ماتحتوں کے حقوق احادیث اور اخلاقیات  کی روشنی میں*  عادل کی بیوی نے اسے فون کیا کہ چھوٹا بیٹا دلاور بہت رو رہا ہے اسکو تیز بخار ہے آپ اسکو ایک بار ڈاکٹر کو دکھا دیں اور بچوں کے اسکول سے بھی پیغام آیا ہے کہ اسکول کی فیسیں ابھی تک نہیں بھیجیں؟ عادل اسکی باتیں بھی سُن رہا تھا اور اس کی آنکھوں کے سامنے کریانے والے اور دودھ والے کے چہرے بھی گھوم رہے تھے۔  تنخواہ جو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو آجاتی تھی وہ اب لیٹ آنے لگی تھی یہاں تک کہ 14 ، 15 دن بھی لیٹ ہونے لگی تھی۔ ایک مہنگاٸی نے بدحال کیا ہوا تھا اوپر سے کمپنی کا نیا منیجر نہایت بداخلاق اور بدتمیز لگادیا گیا تھا جو کمپنی کے نچلے ملازمین کو حقارت سے دیکھتا۔ یہ منیجر کمپنی میں اپنی پسند کا سپرواٸزر بھی لے آیا تھا جو کمپنی کے ورکرز کی تنخواہیں بناتا اور ورکرز کو تنگ کرنے اور نوسربازی سے ڈرا دھمکا کر ان سے پیسے اینٹھنے کا کوٸی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔۔  عادل کے گھر کا چولہا صرف اسی تنخواہ کے دم پہ چلتا تھا۔ اب اسکی بیوی جو کہ خود بھی بیمار رہنے لگی تھی کا فون آگیا تھا عادل سخت پریشان تھا وہ فون ...

آزاد فضاٶں میں غلام پرندے

تصویر
 *آزاد فضاٶں میں غلام پرندے*  اتوار کے دن میں تفریح کیلیے نکلا اور ٹہلتا ہوا بازار تک چلا آیا۔۔ بازار میں کافی گہما گہمی تھی۔ مُجھے کچھ یاد آیا تو میں نے سیل فون نکال کر اپنے دفتر میں کام کرنے والے لڑکے حارث کو فون کرکے ادھر بُلایا۔۔ حارث آیا تو میں نے اسے کہا کہ آٶ یار آج مزار کی زیارت کرتے ہیں۔ دنیا دور دراز سے منتیں ماننے آتی ہے اور ہم یہیں سے اُٹھ کر صاحب مزار کیلیے دعا کرنے نہیں جاتے۔ حارث نے سرہلاتے ہوۓ کہا کہ سر یہ سب عقیدے اور لگاٶ کی بات ہے۔  ہم باتیں کرتے ہوۓ آگے بڑھے۔ دربار قریب ہی بازار کے بیرونی طرف تھا۔ جب ہم دربار کے قریب پہنچے تو  میری نظر چند آدمیوں پر پڑی۔ جنہوں نے دربار کے دروازے کے  ساتھ ہی چھابے والے پنجرے لگاۓ ہوۓ تھے جسمیں انہوں نے مختلف انواع کے پرندے قید کر رکھے تھے۔  میں نے آگے بڑھ کر ان میں سے ایک سے پوچھا کہ بھاٸی یہ پرندے لیکر یہاں کس لیے کھڑے ہو؟ جس پر حارث نے فوراً اسکی جگہ جواب دیا کہ  جاوید صاحب یہاں یہ بات مشہور ہے کہ پرندے آزاد کروانے والے کو خوش ہو کر دعاٸیں دیتے ہیں اور اللہ انکی دعاٸیں رد نہیں کرتا فوراً قبول کرتا ...