افسر شاہی ، منصب اعلیٰ اور ماتحتان



 
*منصب اعلیٰ کے ماتحتوں کے حقوق احادیث اور اخلاقیات
 کی روشنی میں* 

عادل کی بیوی نے اسے فون کیا کہ چھوٹا بیٹا دلاور بہت رو رہا ہے اسکو تیز بخار ہے آپ اسکو ایک بار ڈاکٹر کو دکھا دیں اور بچوں کے اسکول سے بھی پیغام آیا ہے کہ اسکول کی فیسیں ابھی تک نہیں بھیجیں؟

عادل اسکی باتیں بھی سُن رہا تھا اور اس کی آنکھوں کے سامنے کریانے والے اور دودھ والے کے چہرے بھی گھوم رہے تھے۔  تنخواہ جو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو آجاتی تھی وہ اب لیٹ آنے لگی تھی یہاں تک کہ 14 ، 15 دن بھی لیٹ ہونے لگی تھی۔ ایک مہنگاٸی نے بدحال کیا ہوا تھا اوپر سے کمپنی کا نیا منیجر نہایت بداخلاق اور بدتمیز لگادیا گیا تھا جو کمپنی کے نچلے ملازمین کو حقارت سے دیکھتا۔ یہ منیجر کمپنی میں اپنی پسند کا سپرواٸزر بھی لے آیا تھا جو کمپنی کے ورکرز کی تنخواہیں بناتا اور ورکرز کو تنگ کرنے اور نوسربازی سے ڈرا دھمکا کر ان سے پیسے اینٹھنے کا کوٸی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔۔ 

عادل کے گھر کا چولہا صرف اسی تنخواہ کے دم پہ چلتا تھا۔ اب اسکی بیوی جو کہ خود بھی بیمار رہنے لگی تھی کا فون آگیا تھا

عادل سخت پریشان تھا وہ فون پر بیوی کو ایک دو دن کا کہنے ہی والا تھا کہ اسکا باس غصے میں بھناتا ہوا دفتر میں نازل ہوا اور نہایت غصے میں تیز آواز میں بولا ۔۔

”تم لوگ کسی کام کے نہیں ہو جب دیکھو فون پر لگے رہتے ہو۔ اس عمر میں بھی تمہیں چین نہیں ہے۔ تنخواہیں مانگنے کیلیے سب سے پہلے کھڑے ہوتے ہو۔۔ دفتر کا کام تمہارے باپ نے کرنا ہے مجھے فلانی فاٸل نکال کر دو“

عادل نے فون کاٹا اور فوراً فاٸل  باس کے حوالے کی۔ شام کو اس نے پھر تنخواہ کا پتا کیا تو کرخت لہجے میں جواب ملا کہ صبر بھی کرلیا کرو آجاۓ گی۔۔۔

دوستو۔۔!

ایسی کتنی ہی کہانیاں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑیں ہیں۔۔ جن میں بہت سے ایسے عادل ملیں گے ، بہت سے ظالم افسران اور بہت سے بےدید کلرک مافیاز بھی آپکو دیکھنے کو ملیں گے۔۔

یہ سب لوگ ہمارے اسی معاشرے کا حصہ ہیں جسکو ہم مسلم پاکستانی معاشرہ کہتے ہیں۔

 درحقیقت اس دنیا کا رنگ ہے کوٸی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے تو کوئی فقیر ، کوٸی وزیراعظم ہے تو کوٸی ناٸب قاصد۔۔۔

لیکن مقام و مرتبہ کا یہ فرق اس لئے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ کم حیثیت شخص کو نیچ اور حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانہ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ 

اسلام کا یہ حُسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔

 وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔ 

 ماتحتوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنے کی مثالوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔

 نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔۔۔

 حضرت سیّدُنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (دس سال تک) سفر و حَضر میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ ص نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ 

(بخاری،ج2،ص243، )

ماتحتوں کو تنخواہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ تنخواہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی اور کٹوتی یا دیر کرنا بددیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے۔

ماتحتوں سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی یا نقصان ہوجائے تو درگزر کیا جانا چاہیے۔ 

موقع محل کی مناسبت سے دُرست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا  منصب اعلیٰ رکھنے والے کا حق ہے لیکن ماتحتان کو ہدفِ تنقید بنالینا، انہیں کَھری کَھری سنانا، ذلیل کرنا اور معمولی غلطیوں پر بھی گرفت کرنا سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔

 ایک شخص نے نبی کریم صلى الله عليه واله وسلم سے عرض کیا کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک مُعاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا 

” ہر روز 70 بار “

(ابو داؤد،ج 4،ص439، حدیث:5164) 

ماتحتوں سے ہمیشہ نیکی اوربھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ صاحبِ منصب یا جس سے کام ہو اس سے تو اچھے انداز میں پیش آیا ہی جاتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ نچلے تنخواہ دار ملازم کے ساتھ بھی ہمیشہ حُسنِ سلوک کیا جائے۔ ان کی ضَروریات کا خیال رکھا جائے، اچھے طریقے سے خیرخیریت دریافت کی جائے اور مشکلات میں حسبِ استطاعت مدد کی جائے۔ 

اللہ پاک ہمیں ماتحتوں کے حقوق کو سمجھنے اور انکےساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 *محمدطاہرسرویا بلاگر*

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Maryum Aurangzeb Pmln's mother Tahira Aurangzeb's reality

جنرل باجوہ کو مشرف سمجھنا امریکی صدر ٹرمپ کی فاش غلطی ہے۔۔برطانوی تھنک ٹینک

ارض قدس کی مسلمانوں کیلیے اہمیت اور مسجد اقصی اور گنبد صخری کی تاریخ