انصاف والے معاشرے
پرسوں سے تمام عرب میڈیا کی ٹاپ اسٹوری بنے 26 سالہ
محمد بن مرسل کا دل گداز واقعہ سُنیے اس واقعہ کا آخری پہلو ہم سب کیلیے ایک بڑی روشن مثال ہے۔۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ نوجوان محمد بن مرسل یمن بارڈر کے ساتھ متصل سعودی عرب کے تاریخی شہر نجران کا رہنے والا تھا
معمولی سی تلخی کے باعث اس کے ہاتھ سے اسکے ایک کزن کا قتل ہو گیا۔۔
اسے جیل ہوگئی ۔۔
جیل میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد عدالت نے قصاص میں اسکی گردن اڑانے کا حکم سنا دیا، البتہ شرعی طور پر مقتول کے ورثاء دیت لینے یا فی سبیل اللہ معاف کرنے کا اختیار بھی محفوظ رکھتے تھے۔۔
محمد مرسل کے قبیلے آل رزق کے بچوں ،بزرگوں اور نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مقتول کے قبیلہ آل صنیج کے سامنے معافی کی درخواست رکھی جائے وہ چاہیں تو دیت لیں ، وہ چاہیں تو معاف کریں۔۔
یہ درخواست رکھنے کا انداز اتنا منفرد تھا، اتنی عاجزی اور فریاد اپنے اندر سموۓ ہوۓ تھا کہ پورے عرب میڈیا کا یہ ٹاپ اسٹوری بن گیا۔۔
محمد بن مرسل کے قبیلے کے چھوٹے بڑے اور بزرگ سب مقتول کے دروازے پر پہنچ گیے
،مقتول کے ورثاء کو بلایا گیا، ان کے سامنے قبیلے کے سرداروں ، شیخوں ، جوانوں اور بچوں نے اپنی عقالیں،چادریں،لمبے جبے وغیرہ اتار کر مقتول کے ورثاء کے قدموں میں رکھے، عزت اور فخر سمجھی جانے والی اشیاء اتار کر مقتول کی چوکھٹ پہ رکھ دیں۔۔
اپنی چادروں سے گھٹنوں کو باندھ کر زمین پر لیٹ گئے،اپنے سروں پہ مٹی ڈالی،شاعروں نے معافی پر قصیدے پڑھے،
قاتل کے ننھے بچے نے کچھ یوں معافی کی استدعا کی کہ جگر کٹ جاۓ۔۔۔
منہ مانگی دیت کی پیش کش کی گئی۔۔
یہ سب دیکھ کر لوگوں کے دل اتنے پسیج گٸے کہ پورا سعودی عرب بول پڑا کہ نوجوان کو معاف کیا جانا چاہیے۔۔
کیونکہ شریعت نے دیت کے ساتھ ساتھ معافی کا آپشن بھی تو رکھا ہے۔۔
لیکن ۔۔
مقتول کے ورثاء نے نہ تو معاف کیا اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوئے۔۔
چنانچہ آج سے تین دن پہلے بیس ستمبر کو نوجوان محمد بن مرسل کی گردن قصاص میں اڑا دی گئی،
دوستو۔۔! یہ پہلا قاتل تھا جس کیلئے پورے ملک میں مغفرت کی دعائیں ہو رہی ہیں،
لوگ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں،
لیکن دوسری طرف قانون اپنی جگہ کتنا مضبوط ہے، اسکی بھی طاقت بھرپور دیکھنے کو ملی۔
یہی وہ پہلو ہے ، وہ قانون ہے جو سب کیلیے برابر ہے اور یہی وہ انصاف ہے جو ہمارے لیے روشن مثال ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ
دنیا میں وہ معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں جن معاشروں میں عدل کا فقدان ہو جاتا ہے۔
آج اگر ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر دوڑاٸیں تو بخوبی سمجھ آجاتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی تباہی کا سب سے بڑا سبب یہی تو ہے۔
*محمدطاہرسرویا بلاگر*
تبصرے