پہلی ذی الحج کاٸنات کی عظیم شادی کامنظر
حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور پاک بی بی حضرت فاطمہ الزہرا ع کی شادی ہجرت کے دوسرے سال ذی الحجہ کی پہلی تاریخ میں ہوئی جبکہ آپ دونوں کے درمیان نکاح کے صیغے پیغمبر اکرمؐ نے پہلے ہی جاری کر دیئے تھے۔ بعض محققین کے مطابق عقد کے دس مہینے بعد رخصتی ہوئی تھی۔ حدیث کی کتابوں کے مطابق حضرت علیؑ سے پہلے مہاجرین و انصار میں سے کئی شخصیات نے پیغمبر اکرمؐ سے حضرت فاطمہؑ کا رشتہ مانگا تھا لیکن پیغمبر اکرمؐ نے ان رشتوں کی مخالفت فرمائی۔
حضرت زہراؑ کا حق مہر 400 سے 500 درہم کے درمیان تھا۔ احادیث کے مطابق حضرت علیؑ نے اپنی زرہ بیچ کر بی بی پاک حضرت زہراؑ کا حق مہر ادا کیا۔ آپ دونوں کی شادی کی مناسبت سے پیغمبر خداؐ نے مدینہ کے لوگوں کو ولیمہ دیا۔
رخصتی کے وقت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ امام علیؑ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے دعا فرمایا: خدایا ان کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک اور ان کی نسل کو مبارک قرار دے۔
تاریخی مآخذ کے مطابق حضرت زہراءؑ کا حق مہر 400 سے 500 درہم کے درمیان تھا۔
امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ ان میں سے کوئی ایک چیز فروخت کی تھی۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم حضرت ابوبکرؓ کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہوگی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے حضرت عمار یاسر سمیت کچھ اور صحابہ کو بھی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔
شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں لکھی ہے:
ایک قمیض جس کی قیمت 7 درہم تھی
برقعہ 4 درہم میں
خیبر کی تیار کردہ عبا
کجھور کے پتوں سے بنی چارپائی
دو بچھونے جن کا بیرونی کپڑا موٹے کتان کا تھا ایک کجھور کی چھال سے اور دوسرا بھیڑ کی اون سے بھرا ہوا تھا
طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکیے جنہیں اذخر (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل ہیں) سے پر کیا گیا تھا۔
اون کا ایک پردہ
ہجر میں بنی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مراد بحرین کا مرکز ہے نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)
ایک دستی چکی
تانیے کا طشت
چمڑے کا مشکیزہ
لکڑی کا بنا ڈونگا
دودھ دوہنے کے لئے گہرا برتن
پانی کے لئے ایک مشک
ایک مطہرہ (لوٹا یا صراحی جسے طہارت وضو کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا
مٹی کے کئی مٹکے یا جام۔
کہا گیا ہے کہ شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہؑ سے کچھ مانگا تو آپؑ نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا۔
*ولیمہ:-* پیغمبر اکرمؐ نے حضرت بلال حبشیؓ کو بلایا اور فرمایا: میری بیٹی کی شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے لئے شادی کے دن کھانا دینا ایک سنت ہو۔ اس لئے جاؤ اور ایک بھیڑ اور پانچ مد جو مہیا کرو تا کہ مہاجرین اور انصار کو دعوت دوں۔ بلالؓ نے یہ سب تیار کیا اور رسول اللہؐ کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے یہ کھانا اپنے آگے رکھا۔ لوگ پیارے آقا پیغمبرؐاسلام کے حکم پر گروہ در گروہ مسجد میں داخل ہوئے اور سب نے کھانا کھایا۔ جب سب نے کھا لیا تو کچھ مقدار میں جو بچ گیا تھا اسے آپؐ نے متبرک کیا اور بلال سے فرمایا: اس کھانے کو عورتوں کے پاس لے جاؤ اور کہو: یہ کھانا خود بھی کھائیں اور کوئی بھی اگر ان کے پاس آئے تو اسے بھی اس کھانے سے دیں
شادی کے کچھ دن گزرنے کے بعد پیغمبرؐ کے لئے فاطمہؑ سے دوری مشکل ہو گئی اس لئے سوچا کہ بیٹی اور داماد کو اپنے گھر میں ہی جگہ دی جائے۔ حارث بن نعمان جو کہ آپؐ کا صحابی تھا جب وہ اس خبر سے آگاہ ہوا تو پیغمبرؐ کے پاس آیا اور کہا: میرے سب گھر آپ کے نزدیک ہیں۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپ کا ہی ہے۔ خدا کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میرا مال آپ لے لیں یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ میرے پاس ہو۔ پیغمبرؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا تمہیں اس کا اجر دے۔ اس طرح سے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ رسول خداؐ کے ہمسائے بن گئے۔
_کاٸنات کی ان عظیم ہستیوں پر کروڑوں درودسلام_ 💖
*اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ*
محمدطاہرسرویا بلاگر
تبصرے