آزاد فضاٶں میں غلام پرندے
*آزاد فضاٶں میں غلام پرندے*
اتوار کے دن میں تفریح کیلیے نکلا اور ٹہلتا ہوا بازار تک چلا آیا۔۔
بازار میں کافی گہما گہمی تھی۔ مُجھے کچھ یاد آیا تو میں نے سیل فون نکال کر اپنے دفتر میں کام کرنے والے لڑکے حارث کو فون کرکے ادھر بُلایا۔۔
حارث آیا تو میں نے اسے کہا کہ آٶ یار آج مزار کی زیارت کرتے ہیں۔ دنیا دور دراز سے منتیں ماننے آتی ہے اور ہم یہیں سے اُٹھ کر صاحب مزار کیلیے دعا کرنے نہیں جاتے۔
حارث نے سرہلاتے ہوۓ کہا کہ سر یہ سب عقیدے اور لگاٶ کی بات ہے۔
ہم باتیں کرتے ہوۓ آگے بڑھے۔ دربار قریب ہی بازار کے بیرونی طرف تھا۔
جب ہم دربار کے قریب پہنچے تو میری نظر چند آدمیوں پر پڑی۔ جنہوں نے دربار کے دروازے کے ساتھ ہی چھابے والے پنجرے لگاۓ ہوۓ تھے جسمیں انہوں نے مختلف انواع کے پرندے قید کر رکھے تھے۔
میں نے آگے بڑھ کر ان میں سے ایک سے پوچھا کہ بھاٸی یہ پرندے لیکر یہاں کس لیے کھڑے ہو؟
جس پر حارث نے فوراً اسکی جگہ جواب دیا کہ
جاوید صاحب یہاں یہ بات مشہور ہے کہ پرندے آزاد کروانے والے کو خوش ہو کر دعاٸیں دیتے ہیں اور اللہ انکی دعاٸیں رد نہیں کرتا فوراً قبول کرتا ہے ، اسلیے اکثر زاٸرین جب دربار پر سلام کرنے آتے ہیں تو واپسی پر ان شکاریوں کو پیسے دے کر پرندے آزاد کرواتے ہیں۔
میں نے اس پرندے بیچنے والے سے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو؟
تو اس نے جواب دیا کہ ساٸیں میرا نام نیاز احمد ہے اور میں ادھر ساتھ ہی بستی میں رہتا ہوں۔
میں نے حارث کو اشارہ کیا اور دربار کے اندر پہنچ کر صاحب مزار کیلیے دعاٶں میں مشغول ہوگیا۔
زیارت کرلینے کے بعد ہم دربار کے صحن سے ہوتے ہوۓ واپس دروازے تک آۓ تو میں نے حارث سے کہا کہ حارث اس پرندوں کے شکاری نے جو بستی بتاٸی ہے تم نے وہ دیکھی ہے ؟
حارث نے اثبات میں سر ہلا کر کہا کہ جی میں نے بستی دیکھی بھی ہے اور وہاں میرے جاننے والے بھی رہتے ہیں۔
دربار سے باہر آکر ہم شکاری کی جانب بڑھے جس کے پاس کچھ عورتیں پرندے آزاد کروا رہی تھیں۔
میں نے ان پرندوں کو غور سے دیکھا اور شکاری سے پوچھا کہ دو پرندوں کی آزادی کے کیا لو گے؟
اس نے کہا کہ بابو جی میں آپ کو ڈسکاٶنٹ کے ساتھ دوں گا آپ یہ بتاٸیں کہ کونسے آزاد کروں؟
میں نے غور سے پرندوں کو دیکھتے ہوۓ دو پرندوں کو سلیکٹ کیا ، شکاری کی مطلوبہ رقم اسکے حوالے کی جس پر اس نے پرندوں کو آزاد فضا میں اُچھال کر اونچی آواز سے کہا کہ اس بابو نے تمہیں آزاد کروایا ہے ان کیلیے دعا کرنا۔۔
گھر واپسی پر میں نیکی سے سرشار سا تھا، پرندوں کو یوں آزاد کروا کر بہت خوشی محسوس کر رہا تھا۔
اگلے اتوار میں نے پھر حارث کو بلایا اور کہا کہ حارث چلو آج اس شکاری نیاز احمد کی بستی میں چلتے ہیں۔
حارث نے حیرانگی سے پوچھا خیریت تو ہے جاوید صاحب؟
میں نے مسکرا کر کہا کہ بس یونہی آٶ تو سہی۔۔
بستی میں پہنچ کر حارث نے میرے کہنے پر اپنے جاننے والے دوست کو بلایا ۔۔
میں نے اس سے پوچھا کہ نیاز احمد جو دربار پر پیسے لیکر پرندے آزاد کرتا ہے اسکا گھر کہاں ہے؟
اس نے جواب دیتے ہوۓ کہا۔۔
سر اسکا گھر یہ ساتھ ہی ہے خیریت ہے؟
میں نے اسے بتایا کہ معصوم پرندوں کی آزادی سلب کرنا یقیناً ظلم اور گناہ ہے اسلیے میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کو کنسٹرکشن کی کمپنی میں نوکری دلوا دوں۔ تاکہ یہ باعزت طریقے سے اپنا روزگار کما سکیں اور پرندے بھی آزاد فضاٶں میں سکون کی زندگی گزار سکیں۔۔
میری بات سُن کر اس نے کہا کہ ”سر آپ حارث صاحب کے باس ہیں تو میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ یہ جو نیاز احمد اور پرندوں کے دوسرے شکاری جو آپ نے دیکھے تھے ، یہ تمام لوگ فراڈیے ہیں۔ یہ لوگ دربار پہ آنے والے زاٸرین کی حیثیت کے مطابق ان سے رقم کا تقاضا کرتے ہیں اور پھر اُن کے سامنے پرندوں کو ہوا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ پیسے دینے والا مطمٸن ہو کر چلا جاتا ہے جبکہ پرندے اُڑتے اُڑتے واپس اِن کے گھروں پہ بنی چھتریوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ اگلے دن یہ پھر ان پرندوں کو ڈربے میں بند کرکے لے جاتے ہیں ۔ جناب ان نوسر بازوں کا دھندہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے“
دغا کو یوں دعا کے روپ میں دیکھ کر میں حیرت سے گُنگ سا ہو کر رہ گیا ایسا لگا جیسے سامنے چھت پہ اڑتے پرندے میرا منہ چڑا رہے ہوں ۔۔۔
کچھ دیر بعد میں نے بےساختہ کہا کہ آخر پرندے آزاد ہو کر کہیں اور کیوں نہیں جاتے؟
تو اس نے کہا کہ سر یہ پرندے عادی ہوچکے ہیں۔یہ کہیں نہیں جاتے۔ جہاں بھی اور جدھر بھی انہیں چھوڑ دیں یہ اسی قید میں واپس آ جاتے ہیں۔۔
شام کو میں گھر میں اکیلا بیٹھا خودکلامی کرنے لگا کہ پرندے تو خود قید کے عادی ہو چکے ہیں، پرندے تو غلامی کے عادی ہوچکے ہیں۔۔۔
اب میں یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ پنجروں سے آزاد کروانا ہی آزادی نہیں ہوتی ، اصل آزادی دِلوں سے پنجرے نکلنے پر منحصر ہوتی ہے۔
جب کوٸی قیدی آزادی کے مفہوم اور اسکی افادیت سے ناآشنا ہو جاتا ہے تو وہ غلامی کو برکت سمجھنے لگتا ہے اور پھر ایک موڑ ایسا آتا ہے جہاں وہ زنجیروں اور بیڑیوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور بیڑیاں پہنانے والے کی مرضی اور اشاروں پر چلنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
صحیح معنوں میں پرندہ اُسی وقت حقیقی آزاد ہوگا جب پرندے کے دل سے پنجرہ نکلے گا اور جب پرندے کے دل سے پنجرہ نکلتا ہے تو پھر وہ نیلے آسمان کی بلندیوں کو ناپنا شروع کرتا ہے۔
دوستو۔۔! ہمیں آزاد ہوۓ 75 سال ہوچکے ہیں لیکن ہم ابھی بھی غلام ہیں۔ کیونکہ ہمارے دِلوں میں اغیار کی غلامی کے پنجرے گڑھے ہوۓ ہیں۔ اگر ہم حقیقی آزادی کے متمنی ہیں تو سب سے پہلے اپنے دِلوں کو ان پنجروں سے آزاد کرنا ہوگا۔ اسکے بعد ہم ہی حقیقی آزادی کے ثمرات سے فیض یاب ہوسکیں گے۔
_تحریر_
*محمدطاہرسرویا بلاگر*
soroyatahir@gmail.com
تبصرے