اشاعتیں

دیس کے مہاجر

تصویر
 کراچی میں ایک بار پھر وہی پرانی سیاست شروع ہوچکی ہے وہی جوڑ توڑ اور وہی مہاجر مہاجر کے لسانی ، نسلی تعصب سے بھرپور نعرے۔۔ کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ پاکستان معرض وجود میں آۓ 75 سال ہوچکے، اگلی نسلیں بھی قبرستان کے دہانے پر بیٹھی ہیں۔ مگر پھر بھی ہم اپنے وطن میں اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں۔۔ جب صحابہ کرام رض نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو وہ مہاجرین کہلاۓ لیکن بعد ازاں مدینے میں انکی جو اولاد پیدا ہوٸی وہ مہاجر نہیں اہل مدینہ کہلاٸی۔ اسی طرح برصغیر میں مسلمانوں کیلیے الگ وطن پاکستان بنایا گیا اور یہاں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے پہنچی۔  دوران ہجرت ہندو، سکھ بلواٸیوں نے قافلوں پر حملے کرکے لاکھوں مسلمان شہید کیے مسلمان عورتوں ، لڑکیوں کے ریپ کیے۔ ظلم کی انتہا کی گٸی۔ اس پر سوال زہن میں آتا ہے کہ کیا وہ لاکھوں قربانیاں دینے والے ہمارے بزرگ صرف کراچی کے مہاجر مہاجر کا راگ الاپنے والوں کے باپ دادا تھے؟؟  تو جواب ہے کہ بالکل نہیں۔۔ مسلمانوں کے اس قتل عام میں سب سے زیادہ تعداد پنجابی مسلمان مہاجرین کی تھی۔ جن کی اکثریت پنجاب ہی میں آباد ہوٸی۔ لیکن آپ نے کبھی بھی پنجاب کے ...

میڈیا، سوشل میڈیا پر روبیضہ کی تباہ کاریاں

تصویر
 *میڈیا ، سوشل میڈیا پر روبیضہ کی تباہ کاریاں*  پاکستان میں کچھ سالوں سے جھوٹے پروپیگنڈوں اور بہتان تراشیوں میں بہت تیزی آٸی ہے۔ اسکا بڑا سبب ہمارے لوگوں کی اکثریت ہے جو شخصیت پرستی میں اتنا آگے نکل جاتی ہے کہ اس شخصیت کے مخالفین کے اچھے کاموں کو بھی بُراٸی ثابت کرنے پر تُل جاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو بغیر کسی تحقیق کے پروپیگنڈے میں پھنس کر اسے آگے پھیلا کر کامیاب کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا و فریب کے ہوں گے۔ سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں روبیضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا روبیضہ کون؟  فرمایا گھٹیا (فاسق و فاجر) لوگ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات پر بولا کریں گے۔ (مسند احمد 1332، مسند ابی یعلی 3715، السنن الواردۃ فی الفتن) آجکل کے دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی اکثریت روبیضہ کی تشریح پر پوری اترتی ہے۔  یہی روبیضہ اصل سچ، اصل حقیقت اور صحیح تصویر پیش کرنے والے کو اس قدر...

نٸے سال کا پیغام

تصویر
نیا سال آیا ،کروڑہا سال گزر گٸے اور بھی آٸیں گے لیکن ، گفتارِ توکل را ، لا غالب الا اللہ معراجِ رجا ہے کیا ، لا غالب الا اللہ فرعون ہو کہ قیصر دارا ہو سکندر ہو مغلوبِ یدِ بیضا ، لا غالب الا اللہ پامرد صفت ہونا ہے شرطِ جہاں بانی زر جہدِ مسلسل کا ، لا غالب الا اللہ ملت کی تباہی سے مجروح تو ہوں لیکن کہتا ہے دلِ بینا ، لا غالب الا اللہ غرناطہ کے منبر سے آتی ہے صدا اب تک ماضی ہو کہ ہو فردا ، لا غالب الا اللہ شیوا کو اگر پھر سے سودا ہے خدائی کا شاہد ہے لبِ جمنا ، لا غالب الا اللہ آزر کے تراشے ہیں جمہور و امارت سب اٹھ مردِ خلیل آسا ، لا غالب الا اللہ (محمدعبداللہ علی) اللہ کے سوا کسی کا کچھ بھی غلبہ نہیں ، صرف وہی قادر مطلق غالب و دانا  ہے جو جب چاہیے ہلکی سی کُن کے ساتھ ۔ تقدیریں بدل دیتا ہے💖  *محمدطاہرسرویا بلاگر*

بِکھری ملّت کا خمیازہ

تصویر
 *بکھری ملّت کا خمیازہ*  وطن عزیز میں دہشتگرد دوبارہ ایکٹیو ہو چکے ہیں۔ جو آۓ روز ہماری سیکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہیں۔ ہم روزانہ اپنے وطن کے شہید بیٹوں کے جسد خاکی اُٹھتے دیکھ رہے ہیں۔ اسکی ایک اہم وجہ خطے سے امریکہ کے نکلتے ہی بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانا اور افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا بھی ہے۔ ہم پاکستانی اپنا پاٶں خود کلہاڑی پہ مارتے ہیں۔ یاد رکھیں۔۔! کسی ملک پر قابض ہونے کیلیے دشمن یا مخالف کا پرانا ہتھکنڈا ہے کہ سب سے پہلے اندرونی طور پر اس ملک کو تباہ کیا جاتا ہے۔ اندرونی طور پر تباہ کرنے کیلیے وہاں کی عوام کو گروہوں میں بدلنے کی ہر ممکن کوششیں کی جاتی ہے اور اسکے بعد ہر گروہ کو دوسرے گروہ کا جانی دشمن بناکر ملک کے محافظوں تک پہ قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس سے ملک اندرونی طور پر کمزور ہوجانے کے ساتھ ساتھ بیرونی طرف سے بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد گروہوں میں بٹے اس ملک میں ایک گروہ کو ساتھ ملا کر اس ملک پہ قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ پاکستان بہت عرصہ سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہے لیکن عوام کا ایک بڑا حصہ پھر بھی اپنے محافظوں کے پیچھے موجود رہتا تھا لی...

پاکستانی صحافت کا معیار

تصویر
جھوٹ کیسے پروان چڑھتا ہے۔۔  *جانیے*  ایک دفعہ معروف صحافی اینکر جاوید چوھدری کا گڑھا ہوا ایک جھوٹ خوب واٸرل ہوا کہ ” 1963 میں پاکستان نے تباہ حال جرمنی کو بیس سال کیلیے 12 کروڑ قرض دیا تھا جس پر جرمنی کے چانسلر نے خط لکھ کر شکریہ ادا کیا تھا، آج جرمنی دنیا کی چوتھی معیشت ہے اور پاکستان کے ہاتھ میں کشکول ہے“ جس پر پروپیگنڈا مشینیں آن ہوٸیں تو کچھ لکیر کے فقیر صحافیوں نے اس پر جذبات سے بھرپور کالم تک لکھ مارے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اُس وقت کے صدرِ پاکستان نے جرمنی کو قرض دیا نہیں، بلکہ جرمنی سے قرض لیا تھا اور جرمنی کو خط لِکھ کر شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ یہ پڑی ہے ہماری صحافت اور ایسے ہیں پاکستانی صحافت کے سُرخیل۔۔۔  *محمدطاہرسرویا بلاگر* soroyatahir@gmail.com  

اصل حدف

تصویر
  *اصل حدف*  باشعور پاکستانیت کے علمبردار ضرور پڑھیں۔ پاکستان میں بےہنگم مہنگاٸی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ مہنگاٸی کی پیشن گوٸیاں بھی کی جارہی ہیں۔ عمران خان نے جو بند پڑی صنعتیں دوبارہ چلواٸی تھیں سب کی سب بند ہو چکی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو لیٹ کیا جانے لگا ہے یہاں تک کہ ڈیڑھ ڈیڑھ ماہ تک تنخواہیں روک کر سرکاری ملازمین کی بھی چیخیں نکلواٸی جارہی ہیں۔ ملک کو بُھوک و افلاس میں لپیٹنے کی کامیاب کوششیں جاری ہیں۔ ملک سے ڈالرز تک غاٸب کروا کر اُسکے ڈھنڈورے تک پِیٹ دیے گٸے ہیں۔ رہی سہی کسر دوبارہ شروع ہونے والی دہشتگردی نکال رہی ہے۔ جسمیں صرف غریب عوام اور انہی کے بچے جو مختلف سیکیورٹی اداروں میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں، دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اور کیسے ہورہا ہے؟  یہ سب اسلیے ہو رہا ہے کہ پاکستانی عوام کے سامنے امریکہ کو پالنہار ثابت کرکے عوام کے دِلوں سے امریکہ کی نفرت نکال کر اُسکا شکرگزار بنایا جاسکے۔ اور اسطرح امریکہ بہادر کے کٹھپتلی سدابہار پاکستانیوں پر سواری کرسکیں۔ اور یہ سب کچھ اس طرح مینیج کیا گیا ہے کہ مہ...

حرام سے حلال ہونے تک

تصویر
             _افسانہ_ اینٹوں کے بَھٹے پہ کام کرنے والا ماجھو ، پیڈلوں پر تیز تیز پیر مارتا ساٸیکل دوڑاۓ جارہا تھا۔  جمعرات کی شام تھی اور آج ہر جمعرات کی طرح اس نے بَھٹے کے منشی سے اپنی سات دِنوں کی محنت کے پیسے وصول کیے تھے۔ وہ انجانے خوف کے ساتھ تیز ساٸیکل چلاتا جا رہا تھا کہ اچانک اسے سامنے پولیس کی گاڑی نظر آٸی۔ پولیس کی گاڑی دیکھ کر اُسے خوف کا جھٹکا لگا اور اس نے لاشعوری طور پر ساٸیکل سڑک سے اتار کر کھیتوں کی جانب موڑ دی۔ تھوڑی دیر بعد ہی پولیس کے دو اہلکاروں نے اسے جا لیا اور اسے مارتے پیٹتے کھیتوں سے نکال لاۓ۔  ماجھو کی تلاشی لینے پر اس سے ہفتہ بھر کی کماٸی برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں نے ساٸیکل کے ہینڈل کے ساتھ بندھا ہوا ”سو روپے والا شراب کا شاپر “ بھی اُتار لیا۔  اےایس آٸی لیاقت شراب کا شاپر دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا اس نے کہا ” اوۓ کتے کیا تم کافر ہو؟ اوۓ لعنتی تم اتنی نجس چیز پیتے ہو ، اوۓ تم حرام چیز پیتے ہو؟؟ میں تم کو نہیں چھوڑوں گا “ ماجھو روتے ہوۓ مسلسل معافیاں مانگتا جارہا تھا۔۔ لیکن پولیس اہلکار تو جیسے بہرے ہ...

خطرناک شیطانی حربہ

تصویر
 *راہ مستقیم سے بھٹکانے والا خطرناک شیطانی حربہ*   آپ تنہاٸی میں جو سوچتے ہیں اور کرتے ہیں وہی آپکا اصل کردار ہوتا ہے۔ اگر آپ کو احساس ہے کہ آپکی تنہاٸی میں خدا اور اسکا ڈر بھی آپکے ساتھ ہے تو آپ وقت کے ولی بھی ہوسکتے ہیں۔  اوراگر آپ تنہاٸی میں اپنے آپ کو اکیلا سمجھتے ہیں کہ اب کوٸی نہیں دیکھ رہا تو آپ گمراہی کے راستے پر شتربے مہار ہوکر شیطان کے آلہ کار بھی ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کی تنہاٸی ہی آپکا کردار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آپ تنہا نہیں ہوتے آپ کے ساتھ آپکی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب آپکا خالق موجود رہتا ہے جو اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے  وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚ ۖ وَنَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ   “ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں“ ایک بات پَلَّے سے باندھ لیں تنہائی میں ﷲ تعالیٰ کو فراموش کرکے اُسکی حرمتوں کو پامال کرنے اور بےخوف وخطر ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں میں ...

افسر شاہی ، منصب اعلیٰ اور ماتحتان

تصویر
  *منصب اعلیٰ کے ماتحتوں کے حقوق احادیث اور اخلاقیات  کی روشنی میں*  عادل کی بیوی نے اسے فون کیا کہ چھوٹا بیٹا دلاور بہت رو رہا ہے اسکو تیز بخار ہے آپ اسکو ایک بار ڈاکٹر کو دکھا دیں اور بچوں کے اسکول سے بھی پیغام آیا ہے کہ اسکول کی فیسیں ابھی تک نہیں بھیجیں؟ عادل اسکی باتیں بھی سُن رہا تھا اور اس کی آنکھوں کے سامنے کریانے والے اور دودھ والے کے چہرے بھی گھوم رہے تھے۔  تنخواہ جو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو آجاتی تھی وہ اب لیٹ آنے لگی تھی یہاں تک کہ 14 ، 15 دن بھی لیٹ ہونے لگی تھی۔ ایک مہنگاٸی نے بدحال کیا ہوا تھا اوپر سے کمپنی کا نیا منیجر نہایت بداخلاق اور بدتمیز لگادیا گیا تھا جو کمپنی کے نچلے ملازمین کو حقارت سے دیکھتا۔ یہ منیجر کمپنی میں اپنی پسند کا سپرواٸزر بھی لے آیا تھا جو کمپنی کے ورکرز کی تنخواہیں بناتا اور ورکرز کو تنگ کرنے اور نوسربازی سے ڈرا دھمکا کر ان سے پیسے اینٹھنے کا کوٸی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔۔  عادل کے گھر کا چولہا صرف اسی تنخواہ کے دم پہ چلتا تھا۔ اب اسکی بیوی جو کہ خود بھی بیمار رہنے لگی تھی کا فون آگیا تھا عادل سخت پریشان تھا وہ فون ...

آزاد فضاٶں میں غلام پرندے

تصویر
 *آزاد فضاٶں میں غلام پرندے*  اتوار کے دن میں تفریح کیلیے نکلا اور ٹہلتا ہوا بازار تک چلا آیا۔۔ بازار میں کافی گہما گہمی تھی۔ مُجھے کچھ یاد آیا تو میں نے سیل فون نکال کر اپنے دفتر میں کام کرنے والے لڑکے حارث کو فون کرکے ادھر بُلایا۔۔ حارث آیا تو میں نے اسے کہا کہ آٶ یار آج مزار کی زیارت کرتے ہیں۔ دنیا دور دراز سے منتیں ماننے آتی ہے اور ہم یہیں سے اُٹھ کر صاحب مزار کیلیے دعا کرنے نہیں جاتے۔ حارث نے سرہلاتے ہوۓ کہا کہ سر یہ سب عقیدے اور لگاٶ کی بات ہے۔  ہم باتیں کرتے ہوۓ آگے بڑھے۔ دربار قریب ہی بازار کے بیرونی طرف تھا۔ جب ہم دربار کے قریب پہنچے تو  میری نظر چند آدمیوں پر پڑی۔ جنہوں نے دربار کے دروازے کے  ساتھ ہی چھابے والے پنجرے لگاۓ ہوۓ تھے جسمیں انہوں نے مختلف انواع کے پرندے قید کر رکھے تھے۔  میں نے آگے بڑھ کر ان میں سے ایک سے پوچھا کہ بھاٸی یہ پرندے لیکر یہاں کس لیے کھڑے ہو؟ جس پر حارث نے فوراً اسکی جگہ جواب دیا کہ  جاوید صاحب یہاں یہ بات مشہور ہے کہ پرندے آزاد کروانے والے کو خوش ہو کر دعاٸیں دیتے ہیں اور اللہ انکی دعاٸیں رد نہیں کرتا فوراً قبول کرتا ...

جیتنے والے کون ہیں

تصویر
  جیتتے ہمیشہ وہی ہیں جو  سب سے پہلے  اپنےاندر کے ڈر کو شکست دیتے ہیں۔ محمدطاہرسرویا بلاگر

بھیڑیا اور کتا

تصویر
  بھیڑیا اور کتا بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ لیکن کتے بہت جلد پالتو بن جاتے ہیں جبکہ بھیڑیے کو جو پالتو بنانے کی کوشش کرتا ہے وہ اُسے چیرپھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ بھیڑیا اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ محمدطاہرسرویا

بارش کے بُلبُلوں کی گواہی

تصویر
 *”بارش کے بُلبلوں کی گواہی“*  پُرانے وقتوں میں ایک بستی میں ایک بھولا شخص رہتا تھا۔ اس کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا جس کو چرانے کی غرض سے وہ اکثر دور دراز نکل جاتا تھا۔۔  ایک بار جب وہ بکریوں کو لے کر کافی دور نکل گیا تو بارش شروع ہوگٸی جس پر اس نے بکریوں کا ریوڑ اکھٹا کیا اور  واپسی کا راستہ اختیار کیا۔۔  اس کی بستی میں ایک ظالم شخص بھی رہتا تھا اور اس دن وہ بھی سفر کرتا اسی طرف آ رہا تھا۔  راستے میں اس ظالم نے اس معصوم شخص کو دیکھا تو ایک سنسان جگہ پر اُسے پکڑ کر پوچھنے لگا  ”یہاں اردگرد اور دور دور تک کوٸی انسان موجود نہیں ہے اب یہ بتا، اگر میں تجھے یہاں قتل کردوں تو تیرے قاتل کے متعلق بستی والوں کو کون بتائے گا ؟؟“ بارش تیز ہوگٸی تھی اس بھولے شخص نے بارش میں بنے بلبلوں کی ‏طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔  " اگر مجھے قتل کیا تو میرے قاتل کے بارے میں بارش کے پانی کے یہ بلبلے بتائیں گے“  وہ ظالم آدمی ہنسا اور اس نے خنجر نکال کر اس بھولے معصوم شخص کو قتل کر دیا اور پھر وہاں سے روانہ ہوگیا۔۔ کُچھ عرصہ گزرا۔۔  ایک بار پھر زور سے بارش ہورہی تھی۔۔۔...

سب سے افضل جہاد

تصویر
  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین جہاد یہ ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہے۔“                   ( سنن ترمذی حدیث 2174 ) دور حاضر میں لوگ بسا اوقات حق بات بیان کرنے سے اس لیے روک دیتے ہیں کہ اس سے فتنہ پیدا ‏ہوگا اب ایسے مرحلہ میں کیا کرنا چاہیے؟ اس بات کا جواب حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمایا کہ ”حق بات ، حق طریقے سے ، حقانیت سے کہی جائے تو کبھی فتنہ پیدا نہیں ہو گا۔“