اشاعتیں

اکتوبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بھیڑیا اور کتا

تصویر
  بھیڑیا اور کتا بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ لیکن کتے بہت جلد پالتو بن جاتے ہیں جبکہ بھیڑیے کو جو پالتو بنانے کی کوشش کرتا ہے وہ اُسے چیرپھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ بھیڑیا اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ محمدطاہرسرویا

بارش کے بُلبُلوں کی گواہی

تصویر
 *”بارش کے بُلبلوں کی گواہی“*  پُرانے وقتوں میں ایک بستی میں ایک بھولا شخص رہتا تھا۔ اس کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا جس کو چرانے کی غرض سے وہ اکثر دور دراز نکل جاتا تھا۔۔  ایک بار جب وہ بکریوں کو لے کر کافی دور نکل گیا تو بارش شروع ہوگٸی جس پر اس نے بکریوں کا ریوڑ اکھٹا کیا اور  واپسی کا راستہ اختیار کیا۔۔  اس کی بستی میں ایک ظالم شخص بھی رہتا تھا اور اس دن وہ بھی سفر کرتا اسی طرف آ رہا تھا۔  راستے میں اس ظالم نے اس معصوم شخص کو دیکھا تو ایک سنسان جگہ پر اُسے پکڑ کر پوچھنے لگا  ”یہاں اردگرد اور دور دور تک کوٸی انسان موجود نہیں ہے اب یہ بتا، اگر میں تجھے یہاں قتل کردوں تو تیرے قاتل کے متعلق بستی والوں کو کون بتائے گا ؟؟“ بارش تیز ہوگٸی تھی اس بھولے شخص نے بارش میں بنے بلبلوں کی ‏طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔  " اگر مجھے قتل کیا تو میرے قاتل کے بارے میں بارش کے پانی کے یہ بلبلے بتائیں گے“  وہ ظالم آدمی ہنسا اور اس نے خنجر نکال کر اس بھولے معصوم شخص کو قتل کر دیا اور پھر وہاں سے روانہ ہوگیا۔۔ کُچھ عرصہ گزرا۔۔  ایک بار پھر زور سے بارش ہورہی تھی۔۔۔...

سب سے افضل جہاد

تصویر
  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین جہاد یہ ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہے۔“                   ( سنن ترمذی حدیث 2174 ) دور حاضر میں لوگ بسا اوقات حق بات بیان کرنے سے اس لیے روک دیتے ہیں کہ اس سے فتنہ پیدا ‏ہوگا اب ایسے مرحلہ میں کیا کرنا چاہیے؟ اس بات کا جواب حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمایا کہ ”حق بات ، حق طریقے سے ، حقانیت سے کہی جائے تو کبھی فتنہ پیدا نہیں ہو گا۔“

عشق کی معراج

تصویر
 _میری یہ خاص الخاص  تحریر کہانی ہر مسلمان عاشق رسول ص کیلیے ہے_  پہلی نظر میں ہی وہ اسے پسند کرنے لگا تھا مگر اس نے بات کرنا تو دور ایک نظر بھی اسے دیکھنا گوارہ نہ کیا تھا۔۔ حامد ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا تھا اسکی فیملی اسکی پیداٸش کے تین سال بعد خاندانی تناٶ کی وجہ سے گاٶں چھوڑ کر شہر میں آباد ہوگٸی تھی۔۔ اسلیے رشتہ داروں سے کبھی کبھار خوشی غمی کے وقت ہی سامنا ہوتا تھا۔۔  ایف اے کرنے کے بعد حامد اپنے والد کی دوکان میں اسکا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔۔۔ وہ خاصا دل پھینک قسم کا کھلنڈرا نوجوان تھا ، اسکے گھر والوں کو اکثر شکاٸتیں موصول ہوتیں۔ جس پر وہ اس کی شادی کیلیے فکرمند ہوۓ اور بہت عرصے بعد گاٶں جانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ وہاں رشتہ داروں میں حامد کیلیے رشتہ  تلاش کرسکیں۔  حامد ساتویں کلاس میں تھا جب وہ آخری بار گاٶں گیا تھا۔۔ اُسکو گاٶں سے کوٸی دلچسپی نہیں تھی مگر  ابا اماں کی زبردستی کی وجہ سےمنہ بناتا چل پڑا تھا۔۔  گاٶں پہنچ کر وہ سب سے پہلے حامد کے چچا کے گھر میں گٸے ۔۔  وہاں کھانا کھاتے وقت حامد کے کانوں میں ہلکی سی آواز پڑی کہ تاٸی ...

معرفت الہیٰ کی کرنیں اور شعور انسانی

تصویر
  جاوید ہر وقت اداس اور گم سم رہنے لگا تھا  نہ ہی سج دھج کا شوق باقی رہا اور نہ ہی ملنے جلنے کے لیے بہانے ڈھونڈنے والا دل رہا، اب ایک ہی دُھن طاری تھی کہ دھوکہ باز مختلف چہروں والے لوگوں اور اس رنگ بدلتی دنیا سے بھاگ جاۓ، لیکن جاۓ تو کہاں جاتا؟؟ صورتحال کچھ یوں تھی کہ کچھ نے اسے چھوڑ دیا تھا اور کچھ کو اُس نے چھوڑ دیا تھا،  سوچ سوچ کر سخت پریشان رہنے لگا تھا، دھوکے کھا کھا کر اتنا محتاط ہوچکا تھا کہ سبز خوابوں کے جہان  سے بچنے کیلیے وہ  سونا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔ بہت راتوں سے مسلسل جاگ رہا تھا، اور پھر لوگوں سے بیزاری ، دنیا سے  نفرت میں بدل گٸی، اسے ہرطرف دو چہروں والے دنیادار نظر آتے ، جو بظاہر اسکی حالت پہ افسوس کرتے لیکن اندر سے قہقہے لگاتے ہوۓ۔۔ بالاخر وہ ان سب سے چھٹکارہ پانے کیلیے اور چَین کی تلاش میں پہاڑوں کی سمت نکل پڑا، پھر سکون کی تلاش میں وہ پہاڑ کی چوٹی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا، تو بہت نیچے ایک کھاٸی نظر آٸی، اور پھر اس کھاٸی میں اُسے سکون کی جھلک محسوس ہوٸی ، جس پر وہ مذید بےچین ہوا کہ اس کا سکون تو کھاٸی میں موجود ہے۔۔ جس پر اس نے چوٹی سے کھاٸ...

کاش ایسی رحمت کی بارش ہم پر بھی ہوجاۓ

تصویر
  موسلادھار برسات ہوٸی ، گرد میں اَٹّے جنگلات  کی ساری  کالک دھل گٸی ، درخت ہرے بھرے ہو کر لہرا کر چمکنے لگے۔۔۔ اے کاش ایسی رحمت کی بارش ہم پر بھی ہو ، جو ہمارے دِلوں پر پڑی  ساری زنگ نما گرد اور کالک دھو ڈالے۔  *محمدطاہرسرویا*

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ

تصویر
ہمارے گھروں ، بازاروں ، دفاتر اور عوامی جگہوں  پر اکثر طنزیہ زہریلے جُملے سُننے کو ملتے ہیں  کہ فلاں کا منہ متھا فلاں جانور سے بہت ملتا ہے اور فلاں ایسا ہے فلاں ویسا ہے ، الغرض ایسے ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔  واضع طور پر ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھر چکا ہے جن کیلیے دوسروں کی توہین کرنا اور بےعزت کرنا ، بُرے القابات سے پکارنا ، لوگوں کی نظروں میں زلیل ورسوا کرکے گرانے کی کوشش کرنا سب سے بڑا کام اور لذت دار مشغلہ بن چکا ہے اور اس شیطانی فعل کو سرانجام دینے والے اپنے اس عمل کو اپنی زہانت ، دانشمندی ، بڑاٸی ، عزت اور عظمت بڑھانے والا سمجھ کر کرتے ہیں ۔ اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے کہ “اور نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں”۔(الحجرات۔۴۹:۱۱) اس آیت میں واضح طور پر اس رویے  کو برا سمجھا اور بتایا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ کسی کو نیچا دکھانے کیلیے برے القاب سے پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور...