معرفت الہیٰ کی کرنیں اور شعور انسانی

 


جاوید ہر وقت اداس اور گم سم رہنے لگا تھا 

نہ ہی سج دھج کا شوق باقی رہا اور نہ ہی ملنے جلنے کے لیے بہانے ڈھونڈنے والا دل رہا،

اب ایک ہی دُھن طاری تھی

کہ دھوکہ باز مختلف چہروں والے لوگوں اور اس رنگ بدلتی دنیا سے بھاگ جاۓ،

لیکن جاۓ تو کہاں جاتا؟؟

صورتحال کچھ یوں تھی کہ

کچھ نے اسے چھوڑ دیا تھا

اور کچھ کو اُس نے چھوڑ دیا تھا، 

سوچ سوچ کر سخت پریشان رہنے لگا تھا،

دھوکے کھا کھا کر اتنا محتاط ہوچکا تھا کہ سبز خوابوں کے جہان  سے بچنے کیلیے وہ  سونا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔

بہت راتوں سے مسلسل جاگ رہا تھا،

اور پھر لوگوں سے بیزاری ، دنیا سے  نفرت میں بدل گٸی،

اسے ہرطرف دو چہروں والے دنیادار نظر آتے ،

جو بظاہر اسکی حالت پہ افسوس کرتے لیکن اندر سے قہقہے لگاتے ہوۓ۔۔

بالاخر وہ ان سب سے چھٹکارہ پانے کیلیے اور چَین کی تلاش میں پہاڑوں کی سمت نکل پڑا،

پھر سکون کی تلاش میں وہ پہاڑ کی چوٹی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا،

تو بہت نیچے ایک کھاٸی نظر آٸی،

اور پھر اس کھاٸی میں اُسے سکون کی جھلک محسوس ہوٸی ،

جس پر وہ مذید بےچین ہوا کہ اس کا سکون تو کھاٸی میں موجود ہے۔۔

جس پر اس نے چوٹی سے کھاٸی کا تیزترین سفر کرنےکا سوچا۔۔

اور پھر  رت جگوں کا عادی کٸی راتوں کا جاگا، کھاٸی کی آغوش میں گر کر دنیا و مافیہا کے فریبی رنگوں سے بےنیاز ہو گیا۔۔۔

پرندوں کی آوازیں اور کھٹ کھٹ کی ہلکی ہلکی آواز کہیں سے مسلسل اسکے کانوں میں پڑ رہی تھی جس پر وہ اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگا لیکن آنکھیں کُھلنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔۔عجیب محسوسات تھے۔

پھر کھٹ کھٹ کی آوازوں کے ساتھ اسکے کانوں میں مدھم سی انسانی آوازیں بھی آنے لگیں جس پر اس نے پوری قوت کے ساتھ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو اس کی آنکھیں ایک عجیب سے درد کے ساتھ کھل گٸیں ملگجا سا منظر دکھاٸی دینے لگا اس نے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کی تو جسم جیسے پتھر سا بن گیا تھا ہل ہی نہیں رہا تھا 

پھر اسکے کانوں میں کھٹ کھٹ کی تیز آواز پڑی اور ساتھ ہی کچھ لوگوں کے بولنے کی آواز بھی پڑی کہ بابا جی یہ ہوش میں آگیا ہے

تھوڑی دیر بعد ایک شخص اسکے پاس آیا اور اس کے چہرے کا بغور جاٸزہ لینے لگا اس نے اس بزرگ کو بڑی مشکل سے دیکھا اسے ایسا لگا جیسے اس بزرگ کے چہرے سے روشنی سی پھوٹ رہی ہو اور وہ سفید چہرہ چمک رہا تھا ۔۔ 

اس نے پورے جسم کی طاقت لگاٸی اور منہ سے آواز نکالی کہ آپ کون ہیں اور کیا میں زندہ ہوں؟؟

جس پر بزرگ نے مٹھاس بھرے لہجے میں ہلکے تبسم کے ساتھ جواب دیا کہ ہاں بیٹا آپ دنیا میں ہی ہیں اور زندہ ہیں۔

اس نے دماغ پر زور دے کر سوچا  کہ میں یہاں تک کیسے پہنچا تو آہستہ آہستہ اسے سب یاد آنے لگا۔۔

 اور پھر پہاڑ سے کھاٸی میں سکون دیکھنے کے بعد اسے اپنا چھلانگ لگانا یاد آگیا۔۔

 جس کے بعد اسے کچھ یاد نہیں تھا۔۔

اس نے کہا کہ بابا جی میں تو کھاٸی میں گرا تھا آپ کو کیسے پتا چلا؟؟

جس پر بابا جی نے کہا کہ بیٹا تم ابھی ہوش میں آۓ ہو ابھی دماغ پہ زیادہ زور نہ دو اور آرام کرو ، سب سے پہلے یہ گرم دودھ پیو “

جاوید کو بابا جی نے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا اور پھر کوٸی دوا دی جسکو کھانے کے بعد جاوید پر غنودگی سی چھا گٸی پھر جب جاوید جاگا تو دیکھا کہ بابا جی باہر مصلے پر بیٹھے تھے اور بہت سے لوگ عقیدت کے ساتھ انکے اردگرد موجود تھے۔ باباجی کے ساتھ موجود ایک لڑکے کی نظر جاوید پر پڑی تو اس نے باباجی کو بتایا جس پر بابا جی نے اس لڑکے کو کچھ کہا ۔

وہ لڑکا جاوید کے پاس آیا اور اسے سلام کرنے کے بعد حال پوچھا اور ساتھ ہی اسے گرم دودھ کےساتھ میوہ جات کھانے کیلیے دیے جاوید کے کھا پی لینے کے بعد وہ لڑکا اسے دوا دیتا ہے۔

 دن گزرتے گٸے اور تین ہفتوں میں ہی جاوید ہلکی پھلکی واک کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔

 بابا جی اسے نماز اور زکر ازکار میں بھی شامل کرنے لگے تھے۔

ایک دن وہ  بابا جی کے پاس بیٹھا تو اس نے پھر وہی سوال کیا کہ بابا جی میں تو کھاٸی میں گرا تھا آپ کو کیسے پتا چلا؟؟

بابا جی نے جواب دیا کہ سب سے پہلے مالک حقیقی کا شکر ہے کہ تم پورے تین ماہ بعد ہوش میں آۓ ہو میرا تعلق حکمت سے ہے اور میں اکثر پہاڑوں پر جڑی بوٹیوں کی تلاش میں جاتا رہتا ہوں جب تم پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے کھاٸی کو دیکھ رہے تھے تو میں تمہاری حالت سمجھ چکا تھا اس لیے میں نے اپنے شاگردوں کو فوراً کھاٸی کی جانب بھیج دیا تھا جنہوں نے تمہارے چھلانگ لگانے سے پہلے ہی انتظام کر لیا تھا مگر پھر بھی تمہارا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے تم مسلسل بےہوش رہے ہو۔ ہم تمہیں وہاں سےاٹھا کر اپنی بستی میں لے آۓ تھے

اور تمہارا علاج و معالجہ شروع کر دیا تھا کیونکہ تم اللہ کے بندے تھے ۔۔

اور آج اللہ نے کرم کیا اور تم ہوش میں آگٸے ۔۔

میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ تم نے حرام موت کا کیوں انتخاب کیا ، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ تم اپنے پیدا کرنے والے رب جلیل کو کیسے بھول گٸے جو بندےکو مشکلات دے کربھی آزماتا ہے اور آساٸشیں دے کر بھی۔۔ 

اگر کوٸی انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی زات کا خود خالق ہے تو پھر جو مرضی کرتا پھرے ۔۔لیکن یاد رکھنا مخلوق کبھی اپنی خالق نہیں ہوسکتی۔۔

 یاد رکھو اگر تم مخلوق ہو تو تمہیں اپنے خالق کو پہنچاننا چاہیے تھا، کیونکہ دنیا کا نظام اسی کے اشارے پر رواں دواں ہے ۔ وہ اللہ اکبر ہے یعنی اللہ کتنا بڑا ہے اسکا اندازہ اسی سے کرلو کہ یہ کاٸنات اتنی وسیع ہے کہ زمین اسمیں ایک زرے جتنی حیثیت رکھتی ہے اور اس جیسی نجانے کتنی کاٸناتیں ہیں جو اس رب جلیل کی عظمت اور کبریاٸی کا شاہکار ہیں۔ 

وہ رب عظیم ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ کن کہتا ہے تو چیزیں فوراً ہوجاتیں ہیں۔

 انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا یعنی ہر قسم کی مخلوقات سے انسان کو افضل بنایا ہے اور یہ فضلیت جسم ، عمر یا ہیبت کی وجہ سے نہیں بلکہ شعور کی وجہ سے ہے۔ انسان کو اللہ نے ہلکا سا شعور عنایت کیا ہوا ہے جسکی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ 

جاوید حیرانگی اور دلچسپی سے بابا جی کی باتوں میں مگن تھا ،، اسی دوران اس نے پوچھا کہ بابا جی شعور کیا ہے؟؟

بابا جی نے اسے بتانا شروع کیا کہ بیٹا اکثر لوگ دماغ کو شعور سمجھ بیٹھتے ہیں جو لاعلمی کی وجہ ہے کیونکہ دماغ تو ہر جاندار چیز کو اللہ نے دیا ہے جس سے پرندے گھونسلے بناتے ہیں بچوں کی پرورش کرتے ہیں جانور جُھنڈ میں رہتے ہیں اپنے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ درندے اپنی خوراک کیلیے گھات لگاتے ہیں اور چرندے درندروں سے بچنے کیلیےاقدام کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ دماغ کی بدولت ہی ہوتا ہے۔

  اللہ نے انسانی دماغ میں شعور رکھا ہے۔ جانوروں میں عقل ضرور ہوتی ہے لیکن شعور نہیں ہوتا جسکی وجہ سے جانور اسی حالت میں رہتے ہیں جس حالت میں پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ انسان جب سے بنا ہے تب سے ہی اپنے کھانے کے علاوہ اردگرد آسمان زمین کے بارے میں بھی تجسس رکھتا ہے اور سوچتا رہتا ہے اور پھر اسی شعور کی بدولت انسان اتنا بلند ہوا کہ ہر مخلوق سے آگے بڑھ کر اپنے اشرف ہونے کا ثبوت بن گیا۔۔ 

انسان نے جانوروں کو اپنےفاٸدے کیلیے استعمال کیا اور پھر اتنا آگے بڑھ گیا کہ ہواٶں میں اڑنے لگا دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے میں باآسانی دیکھنے اور بات کرنے لگا یہ سب اسی شعور کی بدولت ہے جو خالق کاٸنات نے انسانی دماغ میں معمولی سا ڈالا۔۔

اور یہی شعور انسان اور جانور میں بڑا فرق کرتا ہے ورنہ انسان اور جانوروں کا جسم تقریباً ملتا جلتا ہے۔

اسی شعور میں منزلیں بھی آتی ہیں۔ دنیا کا شعور ، اپنی زات کا شعور اپنے خالق اور دین کا شعور۔۔

 انسان کے اندر شعور دو رخ متعین کرتا ہے منفی اور مثبت۔۔ 

اگر انسان منفی شعور پر چلتا ہے تو وہ جانوروں سے بھی بڑھ جاتا ہے اور اگر انسان مثبت شعور پر چلتا ہے تو وہ فرشتوں کیلیے بھی رشک کا باعث بن جاتا ہے۔

ہمیں مثبت شعور پہ چلنے کیلیے خالق کے طے کردہ اصولوں پر چلنا ہوگا ورنہ منفی شعور ہم کو جانور کے معیار سے بھی نیچے گرا دے گا۔۔

مثبت شعور کیلیے خالق کے پیغام لانے والوں سے ہی رجوع کرنا ہوگا اور خالق کے آخری اور مکمل شدہ پیغام قرآن پاک کو دل کے قریب کرکے شعور کی شمع جلا کر غور سے پڑھ کر سمجھنا ہوگا۔۔

اور جو خالق کے پیغام قرآن پاک پر مکمل کاربند ہوجاتا ہے، وہ منفی شعور سے آہستہ آہستہ پاک ہونے لگتا ہے اور خالق کے اسرار اس پر کھلنا شروع ہوتے ہیں۔

بیٹا آپ کیلیے اتنا ہی سبق ہے کہ دنیا کچھ بھی نہیں ہے، جو پیدا ہوا ہے اس نے لازمی مرنا ہے ،، اسلیے اپنا رابطہ اس عظیم خالق سے مضبوط کر لو ، جس کے حضور مرنے کے بعد پیش ہونا ہے۔ اور روزمحشر اشرف المخلوقات انسان پر بڑا ہی کٹھن مرحلہ ہوگا۔۔ 

اسکے بعد بابا جی نے زور سے اللہ کہا اور آنکھیں بند کرکے سر کو بلند کرلیا۔۔

جاوید کا جسم کانپنا شروع ہوا آنکھوں سے جیسے دریا پھوٹ پڑے ، پشیمان دل رنجیدہ ہوا ، رقت سے گلا دُکھنے لگا تو وہ زور زور سے رونے لگا اور

” میں گمراہ تھا ، مجھے معاف کردے میرے مولیٰ “

 کی صداٸیں بلند کرنے لگا۔۔۔

خالق حقیقی کی درست پہچان کے بعد اسکے چھ سال عبادت ریاضت میں گزرے ۔۔

 اس کو اتنا پتا چل چکا تھا کہ دوچہرے رکھنے والے تو دراصل انتہاٸی قابل ترس ہوتے ہیں جو آگ بڑھکاتے ہیں اور پھر اسی آگ کی وجہ سے جہنم کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں جہاں انہیں ہمیشہ رہنا ہوتا ہے اور دنیا و آخرت دونوں جگہ رسواٸی انکا مقدر بن جاتی ہے۔

جاوید یہ سوچ سوچ کر ، حرام موت سے بچانے والے اللہ سے رو رو کر اپنے گناہوں کی بخشش کی دعا مانگتا اور ہر وقت اسکا شکر ادا کرتا اور اس کے پیغام کو اپنے جیسے انسانوں تک پہنچانے کیلیے کمربستہ ہوگیا۔

 اسکی زندگی دوچہرے والوں کو ایک چہرے پر لانے ، دلوں سے بغض و کینہ ختم کرنے ، قول و فعل کا تضاد دور کرنے اور لوگوں کو شعور کا درست مفہوم اور خالق حقیقی کا درست پیغام پہنچانے پر مصروف ہوگٸی ۔۔

 *تحریر*

 *محمدطاہرسرویا بلاگر*

soroyatahir@gmail.com

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Maryum Aurangzeb Pmln's mother Tahira Aurangzeb's reality

جنرل باجوہ کو مشرف سمجھنا امریکی صدر ٹرمپ کی فاش غلطی ہے۔۔برطانوی تھنک ٹینک

ارض قدس کی مسلمانوں کیلیے اہمیت اور مسجد اقصی اور گنبد صخری کی تاریخ