اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ



ہمارے گھروں ، بازاروں ، دفاتر اور عوامی جگہوں  پر اکثر طنزیہ زہریلے جُملے سُننے کو ملتے ہیں  کہ فلاں کا منہ متھا فلاں جانور سے بہت ملتا ہے اور فلاں ایسا ہے فلاں ویسا ہے ، الغرض ایسے ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ 

واضع طور پر ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھر چکا ہے جن کیلیے دوسروں کی توہین کرنا اور بےعزت کرنا ، بُرے القابات سے پکارنا ، لوگوں کی نظروں میں زلیل ورسوا کرکے گرانے کی کوشش کرنا سب سے بڑا کام اور لذت دار مشغلہ بن چکا ہے اور اس شیطانی فعل کو سرانجام دینے والے اپنے اس عمل کو اپنی زہانت ، دانشمندی ، بڑاٸی ، عزت اور عظمت بڑھانے والا سمجھ کر کرتے ہیں ۔

اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے کہ

“اور نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں”۔(الحجرات۔۴۹:۱۱)

اس آیت میں واضح طور پر اس رویے  کو برا سمجھا اور بتایا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔

کسی کو نیچا دکھانے کیلیے برے القاب سے پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں بھی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے:

“مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔

( جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121 )

اسی طرح ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں۔

(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9 )

برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ

”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”۔

( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977 )

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ

“جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی“

( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )

ویسے حیرت ہے  آجکل کے حضرت انسان پر ۔۔۔

کیسی مخلوق ہے جو اپنے بنانے والے کی ہی تخلیق کا مذاق اُڑاتی ہے۔ جو بھلکڑ اتنی ہے کہ یہ  بھی بھول جاتی ہے کہ بنانے والا تو ہر چیز پر قادر ہے ، وہ اگر مخلوقات میں کسی کو برتر بناتا ہے تو اسے کمتر کر دینے پر بھی زبردست قدرت رکھتا ہے۔

 اگر ہم اپنی ناقص عقل کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی سے افضل بنا دیے گٸے ہیں تو اس پر صرف خالق کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ ہم اسکی  کسی تخلیق میں عیب جوٸی کرنے میں مشغول ہوجاٸیں۔ 

یہی تکبر ہوتا ہے جو خالق کو مخلوق میں زرا بھی پسند نہیں ہے۔۔

ایسا کرکے ہم خالق  کے غضب کو آواز دینے کی ضرور حماقت کر رہے ہوتے ہیں۔ 

تاریخ اس قسم کے لوگوں کے عبرتناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔

یاد رکھیں ۔۔! 

تکبر صرف خالق حقیقی کی زات کو جچتا ہے، مخلوق میں ہرگز نہیں ۔ ہم مسلمان ہیں تو دین اسلام تو ایسی کسی بھی حرکت کی سخت گیر مذمت کرتا ہے  تو ہم باز کیوں نہیں آجاتے کیا اس زات کا زرا بھی خوف ہمارے جسموں میں نہیں رہا ، جسکی ہمارے ہر اُٹھتے قدم ، زبان سے نکلے الفاظ ، دِلوں میں چھپی باتوں ، ہر لمحے اور ہماری ہر سانس پر نظر ہے۔۔

میرے عزیز مسلمان بھاٸیو ، بہنو۔۔!  

ہر حال میں اپنے خالق حقیقی کا شکر بجا لاٸیں جو اپنی مخلوق کو نواز کر بھی آزماتا ہے اور واپس لیکر بھی۔۔

جو حی القیوم ہے ، جو توبہ قبول کرنے والا  التواب ہے جو رحمن و رحیم کے ساتھ ساتھ غفار ، ستار ، جبار اور قہار بھی ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 اللہ ہم سب کے گناہوں کو ، خطاٶں کو معاف فرماۓ اور ہم سب کو ان لوگوں کے رستے پر چلاۓ جن پر اسکا فضل وکرم ہوا۔۔ آمین

 *محمدطاہرسرویا بلاگر* 

soroyatahir@gamil.com

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Maryum Aurangzeb Pmln's mother Tahira Aurangzeb's reality

جنرل باجوہ کو مشرف سمجھنا امریکی صدر ٹرمپ کی فاش غلطی ہے۔۔برطانوی تھنک ٹینک

ارض قدس کی مسلمانوں کیلیے اہمیت اور مسجد اقصی اور گنبد صخری کی تاریخ