عشق کی معراج
_میری یہ خاص الخاص تحریر کہانی ہر مسلمان عاشق رسول ص کیلیے ہے_
پہلی نظر میں ہی وہ اسے پسند کرنے لگا تھا مگر اس نے بات کرنا تو دور ایک نظر بھی اسے دیکھنا گوارہ نہ کیا تھا۔۔
حامد ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا تھا اسکی فیملی اسکی پیداٸش کے تین سال بعد خاندانی تناٶ کی وجہ سے گاٶں چھوڑ کر شہر میں آباد ہوگٸی تھی۔۔ اسلیے رشتہ داروں سے کبھی کبھار خوشی غمی کے وقت ہی سامنا ہوتا تھا۔۔
ایف اے کرنے کے بعد حامد اپنے والد کی دوکان میں اسکا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔۔۔
وہ خاصا دل پھینک قسم کا کھلنڈرا نوجوان تھا ، اسکے گھر والوں کو اکثر شکاٸتیں موصول ہوتیں۔ جس پر وہ اس کی شادی کیلیے فکرمند ہوۓ اور بہت عرصے بعد گاٶں جانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ وہاں رشتہ داروں میں حامد کیلیے رشتہ تلاش کرسکیں۔
حامد ساتویں کلاس میں تھا جب وہ آخری بار گاٶں گیا تھا۔۔ اُسکو گاٶں سے کوٸی دلچسپی نہیں تھی مگر ابا اماں کی زبردستی کی وجہ سےمنہ بناتا چل پڑا تھا۔۔
گاٶں پہنچ کر وہ سب سے پہلے حامد کے چچا کے گھر میں گٸے ۔۔
وہاں کھانا کھاتے وقت حامد کے کانوں میں ہلکی سی آواز پڑی کہ تاٸی جان آپ میرے ساتھ آٸیں۔۔ حامدنے نظر اٹھا کر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آٸی جو اسکی والدہ کو کمرہ دکھا رہی تھی۔۔
اپنی دل پھینک طبیعت کے باعث حامد کو لڑکی پہلی ہی نظر میں اچھی لگی ۔۔
حامد کھانے کی ٹیبل سے اٹھا اور اپنی والدہ سے بات کرنے کے بہانے لڑکی سے ہیلو ہاۓ کرنے جا پہنچا ، مگر لڑکی اسکی موجودگی کا احساس ہوتے ہی فوراً وہاں سے اپنے کمرے میں گم ہوگٸی۔۔
حامد کی بےچینی بڑھی جسکو اسکی والدہ نے محسوس کرکے پیار سے پوچھا کہ بیٹا آمنہ کیسی لگی تمہیں؟
تو حامد نے جھٹ سے جواب دیا کہ اماں تمہارا انتخاب لاجواب ہے اب جلدی سے بات چلاٶ اور آمنہ کو اپنے گھر میں لاٶ۔۔
اسکی والدہ نے اسکا ہاتھ دبایا اور خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔
کچھ عرصے بعد آمنہ اور حامد کی شادی ہوگٸی ۔۔
حامد کو شادی کے بعد پتا چلا کہ آمنہ صوم و صلات کی سخت پابند ہے صبح تہجد اور نماز فجر سے فارغ ہو کرتلاوت قرآن کا بھی خاص اہتمام کرتی ہے ۔
یہ چیز حامد کیلیے نٸی تھی کیونکہ اسکے گھر والے جمعرات یا جمعہ کو ہی عبادت کا اہتمام کرتے تھے۔ اور وہ خود صرف جمعہ کی نماز پڑھتا تھا۔۔
حامد نے اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کیلیے اِدھر اُدھر سے ادھار پکڑا اور کراچی جیسے بڑے شہر میں آمنہ کو لیکر شفٹ ہوگیا۔ کراچی میں ایک چھوٹی سی کمپنی کی شروعات کی ،
جو آہستہ آہستہ کچھ عرصہ بعد پھلنے پھولنے لگی ۔
پھر وقت گزرا تو تو اللہ نے انہیں ایک خوبصورت سا بیٹا عطا کیا۔۔
ٹھیک اُسی دن حامد کی کمپنی کا چھکا لگا اور دِنوں میں ہی اسکی کمپنی ملک کی بہترین کمپنیوں میں جگہ بنا گٸی۔۔
اس دوہری خوشی نے اسے نہال کر دیا اور اس نے اپنے دوستوں اور کاروباری حضرات کیلیے ایک بڑی دعوت ارینج کی ، جسمیں شراب و شباب کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔۔
جب وہ شراب میں ٹن گھر پہنچا تو اسکی بیوی نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوۓ اسے سنبھالا اور اسے سہارا دے کر بیڈ پر سلا دیا۔۔
آمنہ نے اپنا بیٹا اٹھایا اور اسے غور سے دیکھنے لگی۔۔
اگلے دن آمنہ نے اپنے بیٹے کا نام اپنے شوہر کی اجازت سے حسن رکھا ۔۔
کچھ عرصہ بعد حامد نے کراچی کے پوش علاقے میں بنگلہ لے لیا اور اپنی بیوی اور بچے کو وہاں شفٹ کردیا۔۔
جب حسن چار سال کا ہوا تو اسکا والد جرمنی میں اپنا کاروبار سیٹ کرچکا تھا۔
حسن کو ایک مہنگے اسکول میں داخل کروایا گیا ۔۔
وہ صبح تہجد کے وقت اٹھتا اور اپنی والدہ کے ساتھ تہجد پڑھتا اور نماز فجر کے بعد اپنی ماں سے قرآن پاک پڑھنا بھی سیکھتا۔
حسن بہت حساس بچہ تھا وہ اسکول جاتا تو بچے اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتے مگر وہ اپنے آپ میں سمٹ جاتا اور کسی سے کوٸی بات نہ کرتا ۔۔
اسکی والدہ کو اس بات کا بخوبی علم تھا اسلیے وہ اکثر اسکے پیچھے اسکول پہنچ تھی تاکہ اسکا دل اسکول کی طرف ماٸل ہوسکے حسن اپنی والدہ کے سوا کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔۔
جب وہ دس سال کا ہوا تو اسکی والدہ نے اسے ملازم کے ساتھ مسجد بھیجنا شروع کر دیا۔ وہ نماز پڑھنے جاتا تو لوگ اس سے خوش دلی سے ملتے ۔۔
ایک دن اس نے اپنے ملازم سے پوچھا کہ بشیر چاچا لوگ مجھے ہی خوش دلی سے کیوں ملتے ہیں جبکہ تم سے بات بھی نہیں کرتے تو ملازم بشیر نے کہا کہ چھوٹے صاحب وہ اسلیے کہ آپ حامد انڈسٹریز کے مالک کے بیٹے ہیں جو شہر اور مسجد کے سب سے بڑے ڈونر ہیں۔
حسن نے مسجد انتظامیہ والوں سے سوال کیا کہ کیا میں جب دل چاہے مسجد آسکتا ہوں تو ایک باریش شخص نے عقیدت بھرے لہجے میں کہا کہ جی یہ مسجد آپ ہی کی بدولت تو قاٸم ہے یہ آپ ہی کی ہے جب دل کرے آجاٸیں میں ادھر ہی ہوتا ہوں۔۔
یہ سن کر حسن نے حیرت سے کہا کہ مسجد تو اللہ کا گھر ہے اور میں تو اللہ کے گھر کی مٹی کے برابر بھی نہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مسجد میری ہے۔۔
یہ سن کر وہاں کھڑے ہر شخص کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ایک بزرگ نے یہ سنا تو عش عش کر اٹھا کہ برگر فیملی کا بچہ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی بات کرگیا۔۔
حسن کی ماں نے اسے بچپن سے ہی پیارے نبی صلى الله عليه واله وسلم اور انکے نواسوں کے واقعات سنا سنا کر بڑا کیا تھا۔۔
اور یہ ساری باتیں حسن کے دماغ میں ہی نہیں بلکہ خون میں بھی رچ بس گٸیں تھیں۔۔
وہ اسکول جاتا تو بچے اس سے اب خود دور رہتے کیونکہ وہ ان سے دین کی باتیں کرنے لگتا تھا جو انکی سمجھ سے باہر تھیں وہ حسن کو عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔۔
اسکے اسکول کے ٹیچرز اکثر جب اکٹھے بیٹھتے تو حسن کو ڈسکس کرتے۔
جہاں ایک ٹیچر کہتا کہ عجیب طبیعت کا لڑکا ہے نہ ہنستا ہے اور نہ ہی عام بچوں کی طرح رویہ رکھتا ہے وہیں دوسرا ٹیچر کہتا کہ حسن بہت حساس ہے اور بہت زیادہ زہین بھی ہے۔ایک ٹیچر نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ بہت کم گو ہے مگر کچھ پڑھتا رہتا ہے جب میں نے نوٹ کیا تو وہ درود پڑھ رہا تھا۔۔
اس طرح چلتے ہوۓ وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے آگے بڑھا۔۔
اب حسن جوان ہوچکا تھا اس نے چہرے پر داڑھی سجالی تھی ۔۔
حامد جب بھی گھر آتا تو حسن کو دیکھ کر ہنس کر کہتا کہ دونوں ماں بیٹا ایک جیسے ہیں۔۔
بات درست بھی تھی کیونکہ بچے کی اولین تربیت والدہ کی گود ہی ہوتی ہے
اور حسن کی ماں اسے بچپن ہی سے درودشریف کی لوریوں کے ساتھ سُلایا کرتی تھی۔۔
حسن اپنی والدہ کی بدولت بچپن سے ہی سیرت نبی سے جُڑ گیا تھا اور آہستہ آہستہ قرآن اور صحیح احادیث کو ترجمے سمیت سمجھ کر پڑھ چکا تھا۔۔
اسکی والدہ اکثر نبی ص کے گھرانے کا زکر کرتیں تو اسکی آنکھوں میں آنسو ہوتے۔
حسن جب جب بھی سیرت نبی کا مطالعہ کرتا تو اسے ایک تشنگی ایک پیاس کا احساس ہوتا۔۔۔
پھر ایک ایسی صبح آٸی جو حسن پر بجلی بن کر گری۔۔
اسکی پیاری ماں ، اسکی استاد ، اسکی جنت اسے چھوڑ کر ہمیشہ کیلیے اگلے جہان روانہ ہو گٸی تھی۔۔
اسکو کچھ ہوش نہیں تھا کہ کب ڈاکٹر آیا کب کون آیا وہ بس اپنے ماں کو ہی مسلسل دیکھتا جا رہا ہے اسکے بعد وہ ایک دم گِرا اور بےہوش ہوگیا۔۔
اسے ہوش آیا تو اسکا والد حامد اسکے پاس بیٹھا تھا اور اسکے سر پہ ہاتھ پھیر کر اسے تسلی دے رہا تھا لیکن حسن ایک دم اٹھا اور اس نے اونچی آواز سے ماں کو آواز دی اور پھر دیوانہ وار اپنی ماں کو آوازیں دیتا اس کے کمرے کی طرف بھاگا مگر اُسکی ماں کو دفناۓ ہوۓ گھنٹے گزر چکے تھے۔۔
ماں کے کمرے میں داخل ہو کر وہ دھاڑیں مار مار کے رونے لگا سارے ملازمین بھی رو رہے ہیں ۔ انہوں نے حسن کو سہارا دینے کی کوشش کی مگر حسن تو جیسے دیوانہ ہوچکا تھا اسکی ماں ہی تو اسکا کل جہان تھی۔۔
اسکے بعد اسکے والد نے اسے پکڑا اور سمجھایا ۔۔
مگر حسن کی سماعتوں پر تو جیسے کوٸی آواز ہی نہیں پہنچ رہی تھی۔۔
اسکے بعد حسن ایک بار پھر گرا اور بےہوش ہوگیا۔۔
اس نے دیکھا کہ اسکی ماں نہایت سفید رنگ کے لباس میں اپنے پسندیدہ پھولوں کے باغ میں موجود تھی اور اسکے سر پہ ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔
اس نے اپنی ماں کے پیروں کو بوسا دیا اور بےاختیار کہنے لگا کہ ماں آپ کہاں چلی گٸی تھی تو اسکی ماں نے کہا کہ بیٹا دنیا فانی ہے دنیا امتحان گاہ ہے اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ تم پریشان نہ ہو میں اپنا امتحان پاس کر آٸی ہوں اور مجھے اِس دنیا میں جہاں مجھے ہمیشہ رہنا ہے بہت عزت ملی ہے۔ تم رنجیدہ نہ ہونا ہم ضرور ملیں گے اور یہ رونا دھونا بند کردو اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔ اسکے علاوہ تم نے گزشتہ دنوں سے نہ ہی آقا پر درود پڑھا ہے اور نہ ہی نمازیں ادا کی ہیں۔ آخر کس منہ سے تم پیارے آقا صلى الله عليه واله وسلم سے آنکھیں ملاٶ گے۔۔
جونہی حسن نے اپنی ماں کے منہ سے آقا ص کا نام سُنا تو اسے ایسا لگا کہ جیسے اسکے سینے میں دہکتے کوٸلوں پر ٹھندی پھوار پڑ گٸی ہو ، اسکے بےچین دل کو قرار سا آگیا تھا۔۔
اسکی والدہ نے مذید کہا کہ بیٹا اب تم اٹھو اور فوری طور پر درود اور نمازوں کا اہتمام کرو۔۔
حسن کی جب آنکھ کھلی تو اسکی زبان پہ درود شریف کا ورد جاری تھا۔۔
وہ فوری اُٹھا ٹاٸم دیکھا تو تہجد کا وقت ہونے والا تھا اس نے وضو کیا اور نفل پڑھنے لگا۔۔ صبح ملازم اسے دیکھنے کمرے میں آیا تو حیران ہوگیا کیونکہ حسن صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس بیٹھا قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔۔
اسکے بعد حسن نے خیراتی کاموں کی طرف توجہ دی اور شہر کے دور دراز علاقوں میں موجود مدارس کے غریب طلبا کی مدد کو اپنا مشن بنایا اور ضرورت محسوس کرتے ہوۓ شہر میں ایک بڑا یتیم خانہ بھی بنوا دیا۔۔
والدہ کی وفات کے بعد حسن سیرت نبوی پر غور کرتا تو اسکی تشنگی پہلے سے دوگنی ہوجاتی ، پیارے آقا صلى الله عليه واله وسلم سے ملنے کو دل مچلنے لگتا۔۔
پھر اسے ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے وہ قافلے سے بچھڑا ہوا کوٸی مسافر ہو۔۔
یہ محسوس ہوتے ہی وہ بلند آواز سے درود شریف پڑھنے لگتا تو وقتی طور پر اسے قرار سا آجاتا ۔۔
لیکن پھر وہ آقا کو یاد کرنے لگتا۔۔
اسکے والد مہینے بعد اس سے ملنے آتے اور اکثر کہتے کہ میرے نیک بیٹے اب تم شادی کرلو ۔۔
جس پر وہ اپنے والد کی بات ادب کے ساتھ ٹال دیتا تھا۔۔
وہ جب اکیلا ہوتا تو وہ یہ سوچ سوچ کر تنگی سی محسوس کرنے لگا تھا کہ کاش ٹاٸم ٹریول ممکن ہوتا تو میں بھاگ کر آقا کے دور میں پہنچ جاتا میں آقا کے غلاموں کی جوتیوں میں بیٹھتا اور چُھپ چُھپ کے آقا کو دیکھتا ان کی باتیں سُنتا کاش ایسا ممکن ہوتا۔۔
یہ کہتے ہوۓ وہ زور زور سے رونے لگتا پھر درود پڑھتا اور نماز کا وقت ہوتا تو نماز پڑھتا ۔۔ گھر کے ملازمین اسکی حالت دیکھ رہے تھے اور آپس میں باتیں کرنے لگے تھے کہ حسن صاحب کی ماں کی موت کا ان پر گہرا اثر ہوگیا ہے اسی لیے شاٸد حسن صاحب ایسے ہوچکے ہیں۔۔
حسن اکثر بلند آواز میں بھی خودکلامی کرنے لگا تھا اکثر کہنے لگا تھا کہ
” کاش میں کربلا میں نواسہ رسول ص کی ڈھال بن جاتا کاش میں ان کی حفاظت میں کٹ مرتا ، کاش میں اپنے نبی ص کے ساتھ ہوتا ، لیکن شاٸد میں اس قابل نہیں تھا جو میں انکے دور میں پیدا نہیں ہوا۔۔
کاش میں اپنے آقا ص کو دیکھ سکتا “
حسن کی یہ کیفیت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔۔
عشق رسول صلى الله عليه واله وسلم اسکی رگ رگ میں سراٸت کرچکا تھا۔۔
وہ سورہ مزمل پڑھتا ، سورہ مدثر پڑھتا تو کبھی سورہ یسین پڑھتا اور پھر کہتا کہ میرا پروردگار اپنے محبوب کو کبھی مدثر کہتا ہے کبھی مزمل کہتا ہے کبھی یسین کہتا ہے تو کبھی طہ کہتا ہے۔ اور میں بھی اسکی ہی قربت کا طلبگار ہوں جو میرے پروردگار کا محبوب ہے۔
اس کے بعد حسن زور زور سے درود پڑھتا اور پھر بےچینی بڑھتی تو آسمان کو دیکھنے لگتا اور منہ ہی منہ میں اللہ سے باتیں کرنے لگتا۔۔۔
اب اس پر یہ کیفیت اس قدر طاری ہوچکی تھی کہ اسے اپنا کوٸی ہوش نہ رہا تھا۔
لوگوں سے ملنا جلنا تک ترک کر چکا تھا۔۔
حامد کو بیٹے کی پل پل کی خبر تھی۔ وہ کاروبار اور بیرون ملک میٹنگز میں اتنا مصروف تھا کہ چاہنے کے باوجود حسن سے ملنے نہ آسکا ۔۔
حسن کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوچکا تھا ۔مگر نماز باقاٸدگی سے پڑھتا تھا ۔۔
وہ اکثر درود پڑھتے ہوۓ کہتا کہ یہ بھی کوٸی زندگی ہے کہ آقا ص ہی ہمارے پاس نہیں ہیں ۔۔
ایک دن وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ اے اللہ تو میری حالت دیکھ رہا ہے مجھ پہ رحم کر مجھے اپنے محبوب ص کا قرب عطا کردے۔۔
میں اس اجنبی زمین پر تیرے کسی امتحان کے قابل نہیں رہا۔۔
اسکے بعد وہ پھر زاروقطار رونے لگا۔۔
اس دوران حامد اس سے ملنے کیلیے گھر پہنچ چکا تھا اس نے یہ آخری فقرے سُن لیے تھے جن کو سُن کر اس پر سکتہ طاری ہوگیا اور اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کر آنسو گرنے لگے تھے اسے اپنی گناہوں بھری زندگی پر بہت ندامت ہونے لگی اور وہ اپنی نیک اور صابر بیوی کو یاد کرکے رونے لگا۔۔
اسکے رونے کی آواز پر حسن نے پلٹ کر دیکھا تو اپنے والد سے لپٹ گیا دونوں باپ بیٹا خوب روۓ۔۔
حامد نے حسن سے کہا کہ” تم نے اپنی کیا حالت بنا لی تم کیا سے کیا ہوگٸے ہو“
حسن نے کہا کہ مجھے آقا صلى الله عليه واله وسلم کے پاس جانا ہے اب مُجھ سے دوری برداشت نہیں ہورہی۔۔
اب میں اُس دھرتی پہ جانا چاہتا ہوں جہاں آقا ص رہتے ہیں ،
میں ہرصورت مدینہ جانا چاہتا ہوں“
یہ سُن کر حامد نے کہا کہ بیٹا میں نے ساری زندگی جو کچھ کمایا ہے وہ سب تیرے ہی لیے تو ہے پلیز واپس آجاٶ۔۔
حسن نے کہا کہ بابا میں یہاں مرنا نہیں چاہتا میں چاہتا ہوں کہ اپنے آقا ص کے پاس جاٶں اور پھر وہاں سے کہیں نہ جاٶں۔۔
حامد نے بہت کوشش کی لیکن اسکی ہر کوشش بےسود رہی۔۔
آخرکار اسے حسن کو مدینے کی طرف سفر کرنے کی اجازت دینی پڑی اور اس شرط پر کہ حسن کی دیکھ بھال کیلیے کم از کم ایک ملازم ساتھ ضرور جاۓ گا۔۔
حسن راضی ہوگیا۔۔
حسن نے خوش ہو کر اچھے کپڑے پہنے اور عطر لگایا اور وہ تمام مسنون دعاٸیں پڑھتے ہوۓ جہاز میں سوار ہوا ۔۔
وہ مسلسل درود پڑھتا جا رہا اور چاہتا تھا کہ جلدی پہنچ جاۓ ساتھ والے مسافر بھی اسے دیکھنے لگے تھے مگر اب اس کو کسی کی کوٸی پروا نہیں تھی وہ اس ساری حساسیت سے کب کا باہر آچکا تھا۔۔
کسی مسافر نے اپنے سیل فون پر سراٸیکی زبان کی نعت لگا دی۔۔
”اتھاں میں مُٹھڑی نت جان بلب
سوہنڑا خوش وسدا وچ ملک عرب “
جیسے جیسے جہاز عرب دھرتی کی طرف بڑھتا جارہا تھا ویسے ویسے حسن کی بےچینی بھی بڑھتی جارہی تھی۔۔
پھر جہاز لینڈ کرگیا تو اس نے سب سے پہلے احرام باندھا اور عمرہ کی اداٸیگی کیلیے خانہ کعبہ کی طرف چل پڑا جونہی اسکی خانہ کعبہ پر نظر پڑی اسکے اندر جیسے کرنٹ سا دوڑ گیا اس کے آنسو بہنے لگے اس نے نظر ہٹاۓ بغیر زکر ازکار کیے اور پھر دعا کی کہ اے میرے خالق میں تیرے گھر میں تیری محبوب کی دھرتی پہ آیا ہوں مجھے اب واپس نہ بھیجنا مجھے اپنے محبوب کی قربت عطا کردے۔۔۔
جب وہ دعا کر رہا تھا تو ایک احرام میں لپٹا ایک سفید باریش آدمی بھی اسکے قریب کھڑا اسے رشک سے دیکھ رہا تھا۔۔
اس نے عمرہ کی اداٸیگی مکمل ہوتے ہی مدینہ کی طرف سفر شروع کیا ان کی گاڑی میں وہ سفید ریش شخص بھی موجود تھا اس نے ملازم سےٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں تو حسن کے ملازم نے بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں جس پر اس آدمی نے حسن کو غور سے دیکھتے ہوۓ بتایا کہ ”میں ترکی سے ہوں اور کسی دور میں پاکستان میں پڑھتا رہا ہے“
حسن گاڑی میں بیٹھا دنیا و مافیہا سے بیگانہ سا ہو گیا تھا اسکا دل مدینہ النبی کی دھرتی دیکھنے کا سوچ سوچ کر ہی زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔
جونہی گاڑی مدینے کے قریب پہنچی تو ڈراٸیور نے بتایا کہ ہم مدینہ میں داخل ہونے والے ہیں تو حسن بےقراری میں زور زور سے درود پڑھنے لگا اسکا جسم کانپنا شروع ہوگیا تھا اسکی حالت دیکھ کر اس ترک شخص کی آنکھیں بھی بھر آٸیں اور اس نے حسن کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھا مگر حسن جیسے ہر چیز سے بےنیاز ہوچکا تھا۔۔
اسکے بعد جونہی مسجد نبوی کے مینار نظر آۓ تو حسن کی چیخ نکلی اور وہ بےہوش ہوگیا۔۔
جب اسے ہوش آیا تو وہ مدینہ کے اسپتال میں تھا۔۔ اور اسکا ملازم اور ترک بزرگ وہاں موجود تھے۔۔ وہ اٹھا اور ملازم سے کہنے لگا کہ میں نے وضو کرنا ہے جس پر اسے وضو خانہ دکھایا گیا اور پھر اسکے بعد وہ درودشریف پڑھتے ہوۓ دوبارہ مسجدنبوی کی طرف روانہ ہوۓ حسن کی بیقراری پھر بڑھنے لگی تو وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوۓ باب جبراٸل پر پہنچا تو اس پر رقت طاری ہوگٸی اور پھر روضہ رسول ص کے قریب ترین جگہ دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگ گیا ۔۔۔
ملازم بھی رو رہا تھا ترک بزرگ نے ملازم کو اشارہ کیا اور کہا کہ حسن معمولی انسان نہیں ہے اس کا دل عشق محبوب خدا سے لبالب بھرا ہوا ہے۔۔اور اسکا دماغ دل کے آگے بےبس ہوچکا ہے۔لہذٰا تم پریشان نہ ہو کیونکہ وہ جنکا ہے انہیں کی پاس پہنچ چکا ہے۔۔
حسن اردگرد کے ماحول سے مکمل طور پر بےنیاز ہوچکا تھا وہ صرف اتنا ہی جانتا تھا کہ وہ محسن انسانیت حسنین کریمین کے نانا اپنے پیارے آقا صلى الله عليه واله وسلم کے پاس موجود ہے اور جہاں وہ بیٹھا ہے کبھی وہاں سے آقا کا گزر ہوا کرتا تھا۔۔
حسن کہہ رہا تھا کہ آقا کاش میں آپکو دیکھ سکتا کاش میں آپکی بات سُن سکتا کاش میں اس دور میں یہاں ہوتا جب آپ یہاں پیغام الہی پھیلا رہے تھے۔۔
اے کاش۔۔۔
حسن کو وہاں بیٹھے رات ہوگٸی ۔۔
وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتا اور پھر آکر وہیں بیٹھ جاتا اس دوران ملازم نے کافی کوشش کی کہ وہ کچھ کھا لے آرام کرلے لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حسن کھانے پینے سونے سے بیگانہ ہوگیا تھا۔۔
اگلا دن آگیا تو حسن وہیں بیٹھا پڑھتا رہا اس دن ایک شرطے نے اسے کہا کہ آپ یہاں سے اُٹھ جاٸیں آپ مسلسل ایک جگہ نہ بیٹھیں مگر حسن تک اسکی بات پہنچ ہی نہیں رہی تھی۔۔ وہ اپنی دُھن میں بیٹھا رہا۔۔
اس کے بعد پھر اگلا دن آیا تو روضہ رسول ص کی سی سی ٹی وی کے زریعے سیکیورٹی پر مامور شرطے نے روضہ رسول ص کے اندر موجود فورس کو بتایا کہ ایک آدمی مسلسل تین دن سے ایک ہی جگہ آکر بیٹھا رہتا ہے اسے فوری طور پر ریموو کریں۔
جس پر تین چار شرطے بھاگتے ہوۓ آۓ اور حسن کو وہاں سے جانے کا کہنے لگے ۔حسن نے روتے ہوۓ کہا کہ آقا ص مجھے آپ کے شہروالے آپ سے دور جانے کا کہہ رہے ہیں۔ آقا میں آپ سے دور نہیں جانا چاہتا۔۔
حسن کی خودکلامی پر شرطوں کا شک یقین میں بدلا کہ یہ شخص پاگل ہے۔
انہوں نے حسن کو زبردستی پکڑا اور باہر لیجانے کی کوشش کرنے لگے۔۔ حسن نے چیخ کر کہا کہ آقا مجھے اپنے سے دور نہ کیجیے۔۔
اسکے بعد شرطوں کے ہاتھوں میں ہی حسن کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگٸی۔۔
شرطے گھبرا کر وہیں بیٹھ گٸے۔۔
سی سی ٹی وی پر موجود حکم دینے والا یہ سب دیکھ رہا تھا وہ یہ دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔۔
وہ کنٹرول روم چھوڑ کر بھاگتا ہوا وہاں پہنچا اور حسن کے چہرے کی طرف دیکھا تو اسکے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی اور اسکے چہرے کا سکون بتا رہا تھا کہ *عشق* اپنی منزل پا چکا ہے۔
_*تحریر*_
*محمدطاہرسرویا بلاگر*
soroyatahir@gmail.com
تبصرے