یہودی سے مسلمان ہو کر 60 لاکھ لوگوں کو داٸرہ اسلام میں لانے والے عظیم اسلامی اسکالر جاداللہ القرآنی کی کہانی




 یہ تقریباً 1957ء کی بات ہے، کہ فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو "انکل ابراہیم" کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیاء کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ، آئسکریم اور گولیاں، ٹافیاں دستیاب تھیں ...!

اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک سات سالہ بچہ (جاد) تھا۔ جاد تقریباً روزانہ ہی انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد نے کبھی بھی ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولی تھی، ایک بار جاد دکان سے جاتے ہوئے چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا۔ انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا :

" جاد ...! آج چاکلیٹ نہیں اُٹھاؤ گے کیا ...؟ "

انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد آج تک یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا۔ جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا کہ :

" آپ اگر مجھے معاف کر دیں، تو آئندہ وہ کبھی بھی چوری نہیں کروں گا "

مگر انکل ابراہیم نے جاد سے کہا : 

"اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا، ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا۔"

اور بالآخر اسی بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا ...!

وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی۔ بلکہ ایسا ہو گیا کہ انکل ابراہیم ہی جاد کیلئے باپ، ماں اور دوست کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔ جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا، ایسے میں انکل میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتے اور جاد سے کہتے کہ کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو۔ جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے دو صفحے پڑھتے، جاد کو مسئلے کا حل بتاتے، جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر کو چلا جاتا ...!

اور اسی طرح ایک کے بعد ایک کرتے سترہ سال گزر گئے۔ سترہ سال کے بعد جب جاد چوبیس سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابرہیم بھی اس حساب سے سڑسٹھ سال کے ہوچکا تھے ۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گئے ...!

اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی، اُن کی وصیت تھی کہ :

" اس کے مرنے کے بعد یہ صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے ...! "

جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا، کیونکہ انکل ہی تو اسکے غمگسار اور مونس تھے۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا ...!

جاد، انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ مگر ایک دن اُسے کسی پریشانی نے آ گھیرا، "آج انکل ہوتے تو وہ اُسے کتاب کھول کر دو صفحے پڑھتے اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا" جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اُس کے آنسوؤں نکل آئے ...!

"کیوں ناں آج میں خود کوشش کروں ...!" 

کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا، لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ کتاب اُٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ :

" مجھے اس میں سے دو صفحے پڑھ کر سناؤ "

مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا :

" یہ کیسی کتاب ہے ...؟"

تیونسی نے کہا :

" یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے ...! "

جاد نے پوچھا :

" مسلمان کیسے بنتے ہیں ...؟ "

تیونسی نے کہا :

" کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں ...! "

جاد نے کہا : 

" تو پھر سن لو میں کہہ رہا ہوں أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله و أَشْهَدُ ان محمد رسول الله ...! "

جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے "جاد اللہ القرآنی" کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی، دین کو سمجھا اور اور اس کی تبلیغ شروع کی ...!

یورپ میں اس کے ہاتھ پر چھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل کے دستخط کیے ہوئے تھے۔ ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی:

" ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة "

" اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ...! "

جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اس کیلئے وصیت ہو۔ اور اسی وقت جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی، اور ساتھ ہی جاد اللہ نے یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا، سوڈان، یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا، دعوت حق کیلئے ہر مشکل اور پرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا ...!

جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے تیس سال گزار دیئے۔ سن 2003ء میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھر کر محض چوون سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملے ...!

دوستو۔۔! بات ابھی ختم نہیں ہوئی...!

جاداللہ قرآنی رح کی ماں ایک تعلیم یافتہ جنونی یہودی خاتون تھی جو ایک یونیورسٹی میں لیکچرار تھی۔ 

 اس نے اپنے مسلمان بیٹے کی موت کے دو سال بعد 2005 میں اسلام قبول کیا .. 

وہ 70 سال کی عمر میں مسلمان ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے تیس سال اپنے تمام تجربے اور تعلیم اور لوگوں کو قائل کرنے کی اپنی مہارت کے ساتھ، اپنے بیٹے کو یہودیت میں واپس لانے کے لیے اس سے لڑتے گزارے۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کو واپس یہودیت پر آنے پر راضی نہیں کر سکی۔ لیکن  ان پڑھ بوڑھے مسلمان شخص چچا ابراہیم اسکے بیٹے کے دل کو اسلام سے جوڑنے میں کامیاب رہے۔۔۔

دوستو۔۔!  آخرکار غیرجانبدار لمبی تحقیق کرنے پر انہیں بھی یقین آگیا کہ اسلام ہی درست اور سچا مذہب ہے

 اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس خاتون کی حفاظت فرمائے آمین

اب آتے ہیں اہم پواٸنٹ کی جانب ۔۔

جاد نے اسلام کیوں قبول کیا!!!

جاد اللہ القرانی نے کہا ۔۔

چچا ابراہیم نے 17 سال تک  کبھی بھی مجھے "تم کافر" یا "تم یہودی" نہیں کہا، یا کبھی مجھ سے "اسلام قبول کرنے" کو نہیں کہا۔۔۔

17 سالوں میں انہوں نے کبھی مجھ سے مذہب یا اسلام یا یہودیت کے بارے میں بات نہیں کی! 

دوستو۔۔! تصور کریں کہ ایک تعلیم سے محروم بوڑھا مگر مسلمان شخص اس بچے کے دل کو قرآن کی طرف کیسے متوجہ کر سکا!

ایک عربی شیخ نے جاد اللہ سے اپنی ایک ملاقات میں ان کے احساس اور اس حقیقت کے بارے میں پوچھا کہ آپ کے ہاتھ پر لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا! جس پر جاد اللہ رح نے کہا کہ میں اس پر فخر محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی میں تعریف کا مستحق ہوں کیونکہ یہ سب اللہ پاک کی مجھ پر رحمت ہے ، اس نے چچا ابراہیم سے شاندار کام لے کر مجھ پر احسان عظیم کیا۔۔۔

ڈاکٹر صفوت حجازی کہتے ہیں کہ  مطالعہ کرنے کے لیے لندن میں ایک کانفرنس کے دورن ان کی ملاقات ذوالا قبیلے کے ایک شیخ سے ہوئی جو وہاں رہتے تھے۔ 

 ملاقات کے دوران ڈاکٹر حجازی نے اس شیخ سے پوچھا:

 "کیا آپ ڈاکٹر جاداللہ القرانی کو جانتے ہیں؟" 

شیخ نے نام سنتے ہی کھڑے ہو کر ڈاکٹر حجازی سے پوچھا: 

کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟ 

ڈاکٹر حجازی نے جواب دیا:

 ”ہاں۔۔ جب وہ سوٸٹزرلینڈ میں زیرعلاج تھے ، تب ہماری ملاقات ہوٸی تھی"

 شیخ نے جونہی یہ سنا تو اچانک ڈاکٹر حجازی کا ہاتھ پکڑ کر خوشی سے بوسہ دینے لگا۔۔

 ڈاکٹر حجازی نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟

 میں اس قابل نہیں ہوں نہ ہی میں نے دین کیلیے کوٸی بڑا کام کیا ہے۔۔۔

 لیکن شیخ نے جواب دیا: 

"میں آپ کے ہاتھ کا بوسہ نہیں لے رہا ہوں بلکہ میں اس ہاتھ کو چوم رہا ہوں جس نے ڈاکٹر جاداللہ القرانی سے ہاتھ ملایا تھا!" 

ڈاکٹر حجازی نے پھر پوچھا:

 ’’کیا تم نے ڈاکٹر جاد اللہ کی وجہ سے اسلام قبول کیا؟‘‘ قبائلی شیخ نے جواب دیا:

 "نہیں، لیکن میں نے اس شخص سے اسلام قبول کیا جس نے ڈاکٹر جاد اللہ القرانی رح کے ہاتھ پر اسلام قبول کیاتھا۔۔۔

سبحان اللہ کتنے لوگ اسلام قبول کریں گے ۔۔۔۔

ان لوگوں کے ہاتھوں جنہوں نے جاد اللہ القرآنی رح کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہوگا۔۔

 اور جاداللہ  اور اس ترک مسلمان شخص چچا ابراہیم جو تقریباً 46 سال پہلے فوت ہوۓ تھے ، جسکو اللہ نے جاد اللہ کے 

اسلام لانے کا سبب بنایا۔۔ 

اللہ  چچا ابراہیم اور جاد اللہ القرآنی کے درجات بلند فرماۓ۔آمین

 *محمدطاہرسرویا بلاگر*

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Maryum Aurangzeb Pmln's mother Tahira Aurangzeb's reality

جنرل باجوہ کو مشرف سمجھنا امریکی صدر ٹرمپ کی فاش غلطی ہے۔۔برطانوی تھنک ٹینک

ارض قدس کی مسلمانوں کیلیے اہمیت اور مسجد اقصی اور گنبد صخری کی تاریخ