اسراٸیل پر حملے کے اہم محرکات

 

*ان کے پاس ہتھیار اور طیارے ہیں ، اور ہمارے ساتھ اللّٰہ ہے*

یہ بات آج فلسطینی غزہ کی ایک بہادر لڑکی نے اسوقت کہی ، جب فلسطینی شیروں نے غزہ کی سرحد پر صہیونی قابض فوج پر ایک بڑا حملہ کرکے ناجاٸز ریاست اسراٸیل کے سرحدی فوجی اڈے پر قبضہ کیا اور بہت سے صہیونی یہودی فوجیوں اور آبادکاروں کو گرفتار کرلیا۔۔

 *دوستو۔۔!* صہیونی ناجاٸز ریاست اسراٸیل اور فلسطین کے تنازعات کے متعلق کچھ اہم چیزیں اور معلومات آپ سے شٸیر کرنا ضروری ہیں تاکہ آپ مذید اچھے طریقے سے معاملات سمجھ سکیں۔۔ 

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق آج بروز ہفتہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے گزشتہ سالوں کے دوران کیے گئے سب سے بڑے اس حملے میں 22 افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔

حماس کی جانب سے جہاں ایک طرف ہزاروں راکٹ غزہ کی پٹی پر فائر کیے گئے وہیں مجاہدین بھی شہر میں داخل ہو گئے۔

صہیونی ناجاٸز ریاست اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ گروپ نے ہمارے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ جس کے بعد حماس کے رہنما محمد ضیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے۔ 

دوستو۔۔! اب تھوڑا اس تنازعہ کے بیک گراٶنڈ کو بتاتا چلوں۔۔

غزہ کی آبادی تقریباً 23 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اس علاقے کی لمبائی 41 کلومیٹر جبکہ چوڑائی دس کلومیٹر ہے۔ اس کی اطراف بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر سے منسلک ہیں۔

غزہ اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی کئی برسوں میں ہونے والا بدترین تشدد ہے جس نے اقوام متحدہ کو ’بڑے پیمانے پر جنگ‘ کی وارننگ دینے پر مجبور بھی کیا تھا۔۔

سن 1967 ع کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر کے زیرقبضہ غزہ پر قبضہ کرلیا تھا تاہم سن 2005 میں اسرائیل نے اپنی فوج اور تقریباً 7000 کے قریب آباد کاروں کو یہاں سے نکال لیا تھا۔

یہ علاقہ حریت پسند تنظیم حماس کے زیر کنٹرول ہے جس نے سن 2007 کے پرتشدد فسادات کے بعد اپنے زیرکنٹرول کرلیا تھا۔۔

اس کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے غزہ سے سامان اور لوگوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

سن 2014 میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں ہوئی جبکہ مئی 2021 میں اس معاملے نے پھر سر اٹھایا۔۔

سن 2007 میں حماس کے غزہ میں برسراقتدار آنے کے بعد سے مصر نے غزہ کے ساتھ بڑی حد تک اپنی سرحد کو بند کیا ہوا ہے اور گذشتہ برسوں سے کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے بہانے غزہ پر مزید پابندیاں بھی عاٸد کر رکھی ہیں

ایک جانب اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ ناکہ بندی نے غزہ میں نقل و حرکت اور تجارت کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے تو دوسری جانب اسرائیل نے حریت پسندوں کے راکٹ حملوں سے خود کو بچانے کے لیے سن 2014 میں سرحد کے ساتھ ایک بفرزون کا اعلان کیا۔ اس زون نے لوگوں کی رہائش اور کھیتی باڑی کے لیے دستیاب اراضی کو مذید کم کردیا۔

فلسطینی اب اسرائیل کی طرف سے بفرزون قرار دیے گئے علاقے میں کاشت کاری بھی نہیں کر سکتے، یہ بفرزون غزہ کی سرحد کی جانب 1.5 کلومیٹر پر محیط علاقہ ہے۔ بفرزون میں کاشت کاری کی اجازت نہ ہونے کے باعث پیداوار 75 ہزار ٹن کم ہوتی ہے۔

اسکے علاوہ اسرائیل نے ماہی گیری کو بھی محدود کر رکھا ہے اور غزہ کے شہری صرف ساحل کے ایک خاص فاصلے سے ہی مچھلی کا شکار کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ پابندی ختم کر دی گئی تو ماہی گیری سے غزہ کے عوام کو روزگار اور پروٹین کا ایک سستا ذریعہ مل سکتا ہے۔

*دوستو۔۔!*  صہیونیوں کی اس ناکہ بندی سے نمٹنے کے لیے حماس نے سرنگوں کا ایک نیٹ ورک تعمیر کیا جس کے ذریعے ایک حد تک غزہ میں اشیا آنے اور جانے لگی تھیں۔

بعد ازاں ناجاٸز قابض اسرائیل نے یہ کہتے ہوۓ بھی غزہ پر فضاٸی حملے کیے کہ حریت پسندوں کے زیر استعمال سرنگیں ہیں جن کے زریعے وہ ہمارے علاقوں میں دہشتگردی کرنے آتے ہیں اس لیے ہمیں ان سرنگوں کو تباہ کرنے کیلیے غزہ پر فضاٸی حملے کرنے پڑتے ہیں۔

یہ وہ چند محرکات ہیں جن کی وجہ سے آج ہفتے کے دن حماس کے رہنما اور ترجمان خالد قدومی نے اسرائیل کے خلاف ایک نئی فوجی کاروائی کے آغاز کا اعلان کرتے ہوۓ کہا کہ موجودہ آپریشن نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی اشارہ ہے کہ فلسطینی ان تمام مظالم کے جواب میں صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں ، جن کا وہ حالیہ برسوں میں سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ"ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں اور ہمارے مقدس مقامات بالخصوص مسجدالاقصٰی کے خلاف مظالم بند کرے۔ یہ تمام چیزیں اس جنگ کو شروع کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ قدومی نے بتلایا کہ اسراٸیلی فوجی اور صہیونی آبادکار جو ہم نے آج کی کارواٸی میں پکڑے ہیں وہ یرغمال نہیں بلکہ جنگی قیدی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی آباد کار بھی قابض ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق وہ حملہ آور ہیں۔

دوستو۔۔! آج کی ابتداٸی کارواٸی میں فلسطینی جنگجوؤں نے اسرائیلی فوجی اڈے پر قبضہ کرکے جنگی سازو سامان اور گاڑیاں  قبضے میں لیں۔ اسکے ساتھ ساتھ حریت پسندوں نے اسرائیل کی طرف درجنوں راکٹ فائر کیے، جس سے تل ابیب تک فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے۔۔ 

فلسطینی مجاہدین کی آج کی اس کارواٸی میں اسرائیلی فوج کے بڑے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل نمرود الونی کو گرفتار کرلیا۔

واضع رہے کہ یہ بریگیڈیئر جنرل نمرود الونی فلسطین میں اسرائیلی ڈیپتھ کور کا کمانڈر ہے.

  اس اہم کامیابی پر غزہ میں موجود فلسطینی قیادت نے *اللہ* کے حضور سجدہ شکر ادا کیا

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ حماس نے ایک سنگین غلطی کی ہے اور یہ کہ اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی۔۔

جنگ کون جیتے گا یا ہارے گا یہ تو آنے والا وقت بتاۓ گا۔۔ 

لیکن حماس نے دنیا کو ضرور بتا دیا کہ مسلمان اگر سر پہ کفن باندھ کر جہاد کیلیے کمر کَس لے تو پھر دنیا کا کوئی بم ،کوئی امریکہ، کوٸی اسراٸیل کوئی بھی شیطانی طاقت اسکو روکنے کی طاقت نہیں رکھتی۔۔ 

مجاہدین نے یہ بھی بتا دیا کہ جنگیں ہتھیار سے نہیں حکمت عملی سے لڑی جاتی ہیں اور مسلمان جب جنگ پہ اُتر آتا ہے تو ان سے بہتر جنگی حکمت عملی کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ 

یہ بات افغانستان میں امریکہ بہادر بخوبی ابزرو چکا ہے۔۔

 اس وقت فلسطین کو عالم اسلام کی حمایت کی سخت ضرورت ہے اسلیے فلسطین ایک بار پھر اسلامی ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے اسلامی دنیا میں ابھی تک صرف ایران نے حماس کو مبارک باد دیتے ہوۓ بھرپور مدد اور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ عرب ممالک اور نام نہاد اسلامی ممالک فلسطین کو بیٹھ کر حل نکالنے کے مفت مشوروں سے بہرہ مند کر رہے ہیں۔۔

 _تحریر و تحقیق_ 

*محمدطاہرسرویا بلاگر*

soroyatahir@gmail.com

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Maryum Aurangzeb Pmln's mother Tahira Aurangzeb's reality

جنرل باجوہ کو مشرف سمجھنا امریکی صدر ٹرمپ کی فاش غلطی ہے۔۔برطانوی تھنک ٹینک

ارض قدس کی مسلمانوں کیلیے اہمیت اور مسجد اقصی اور گنبد صخری کی تاریخ