بابا جی قاٸداعظم رح کی زندگی کے آخری ایام کے کچھ اہم واقعات

 14جولائی 1948 کا دن تھا جب باباجی محمد علی جناح کو انکی علالت کےپیش نظر کوئٹہ سےزیارت منتقل کیا گیا تھا

21 جولائی کو جب انہیں زیارت پہنچے ہوئے فقط ایک ہفتہ گزرا تھا،انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اب انہیں صحت کےسلسلے میں زیادہ خطراتImage
مول نہیں لینےچاہییں اور اب انہیں واقعی اچھےطبی مشورے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جوں ہی انہیں اپنے بھائی کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین کے ذریعے کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کو پیغام بھجوایا کہ وہ لاہور کےImage
ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں۔
جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا معدہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ان کے سینے اور پھیپھڑوں کے بارے میں صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخشImage
کے مشورے پر اگلے دن کوئٹہ کے سول سرجن ڈاکٹر صدیقی اور کلینیکل پیتھالوجسٹ ڈاکٹر محمود ضروری آلات اور سازو سامان کے ساتھ زیارت پہنچ گئے۔ انھوں نے فوری طور پر جناح کے ٹیسٹ کیے جن کے نتائج نے ڈاکٹر الٰہی بخش کے ان خدشات کی تصدیق کر دی کہ وہ تپ دق (ٹی بی) کے مرض میں مبتلا ہیں۔
برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک بالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔‘

ڈاکٹر پٹیل نے جناح کی درخواست پر ان ایکس ریز کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہ بتایا۔ تاہم انہوں نے جناح کو علاج اور صحت یابی کے لیے یہ مشورہ ضرور دیا کہ ان کا علاج صرف اور صرف آرام میں مضمر ہے۔ مگر بانی پاکستان کے پاس آرام کا وقت کہاں تھا؟

ان کے پاس وقت کم تھا اور کام بہت زیادہ تھا اور
وہ باقاعدہ علاج کا اہتمام کبھی نہ کرسکے۔ وہ اتنی آہنی ہمت کے مالک تھے کہ انہوں نے اپنے مرض کے بارے میں اپنی عزیز ترین بہن کو بھی آگاہ نہیں کیا، حتیٰ کہ انہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش کو بھی اپنے راز سے اس ہی وقت آگاہ کیا جب وہ خود یہی تشخیص کر چکے تھے۔اگست کو ڈاکٹروں نے رائے دی کہ زیارت کی بلندی مریض کے حق میں اچھی نہیں اور انھیں کوئٹہ منتقل کر دینا چاہیے۔ جناح پہلے تو 15 اگست سے پہلے سفر کے لیے آمادہ نہیں تھے کیونکہ اسی سال جون میں فیصلہ ہوچکا تھا کہ یوم آزادی 15 کے بجائے 14 اگست کو منایا جائے گا۔ لیکن اپنے معالجین کے اصرار پر وہ 13 اگست کو کوئٹہ جانے پر رضا مند ہوگئے۔
جناح کے زیارت کے قیام کے زمانے کی بات ہے کہ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے پوچھا: ’آپ کے بھائی کو کچھ کھانے پر کیسے آمادہ کیا جائے،ان کی خاص پسند کا کوئی کھانا بتائیں۔‘

فاطمہ جناح نے بتایا کہ بمبئی میں ان کے ہاں ایک باورچی ہوا کرتا تھا جو چند ایسے کھانے تیار کرتا تھا کہ بھائی ان کو بڑی رغبت سے کھاتے تھے، لیکن پاکستان بننے کے بعد وہ باورچی کہیں چلا گیا۔ انھیں یاد تھا کہ وہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کا رہنے والا تھا اور کہا کہ شاید وہاں سے اس کا کچھ اتا پتا مل سکے۔
یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے حکومت پنجاب سے درخواست کی کہ اس باورچی کو تلاش کر کے فوراً زیارت بھجوایا جائے۔ کسی نہ کسی طرح وہ باورچی مل گیا اور اسے فوراً ہی زیارت بھجوا دیا گیا تاہم جناح کو اس کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
کھانے کی میز پر انھوں نے اپنے مرغوب کھانے دیکھتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا اور خوش ہو کر خاصا کھانا کھا لیا۔جناح نے استفسار کیا کہ آج یہ کھانے کس نے بنائے ہیں تو ان کی بہن نے بتایا کہ حکومت پنجاب نےہمارے بمبئی والے باورچی کو تلاش کر کے یہاں بھجوایا ہے اور اس نے آپ کی پسند کا کھانا بنایا ہے۔
جناح نے بہن سے پوچھا کہ اس باورچی کو تلاش کرنے اور یہاں بھجوانے کاخرچ کس نے اٹھایا ہے۔ عرض کیا کہ یہ کارنامہ حکومت پنجاب نے انجام دیا ہے، کسی غیر نے تو خرچ نہیں کیا۔ پھرجناح نے باورچی سے متعلق فائل منگوائی اور اس پر لکھا کہ ’گورنر جنرل کی پسند کا باورچی اور کھانا فراہم کرنا حکومت کے کسی ادارے کا کام نہیں ہے۔ خرچ کی تفصیل تیار کی جائے
تا کہ میں اسے اپنی جیب سے ادا کرسکوں‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔جناح زیارت میں ایک ماہ قیام کے بعد جب 13 اگست 1948 کی شام کوئٹہ واپس پہنچے تو انھوں نے اپنی معالجوں سے کہا: ’بہت اچھا کیا کہ آپ مجھے یہاں لے آئے۔۔۔ زیارت میں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پنجرے میں بند ہوں۔‘
29 اگست 1948 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا ایک مرتبہ پھر معائنہ کیا۔
وہ لکھتے ہیں: ’قائد اعظم کا معائنہ کرنے کے بعد میں نے یہ امید ظاہر کی کہ جس ریاست کو آپ وجود میں لائے ہیں اسے پوری طرح مستحکم اور استوار کرنے کے لیے بھی دیر تک زندہ رہیں۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ آیا تاکہ میرے جذبات سے وہ غمگین ہو جائیں گے۔ ان کے یہ الفاظ اور ان کا افسردہ لہجہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘
جناح نے ڈاکٹر الٰہی بخش کو مخاطب کرکے کہا: ’آپ کو یاد ہے، جب آپ پہلی بار زیارت آئے تھے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا لیکن اب میرا مرنا جینا برابر ہے۔‘

ڈاکٹر الٰہی بخش لکھتے ہیں کہ یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایک ایسے شخص کو آبدیدہ دیکھ کر، جسے جذبات سے یکسر عاری اور فولاد کی طرح سخت سمجھا جاتا تھا، ڈاکٹر الٰہی بخش دنگ رہ گئے۔ جناح اس وقت بتدریج روبہ صحت تھے، اس لیے جناح کی مضمحل طبیعت سے انہییں اور بھی حیرانی ہوئی۔ انہوں نے وجہ دریافت کی تو جناح نے فرمایا: ’میں اپنا کام پورا کرچکا ہوں
دس ستمبر 1948 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ اب جناح کے زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی اور یہ کہ اب وہ فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔

غالباً اسی دن جناح پر بےہوشی کا ایک غلبہ ہوا۔ اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے۔ وہ بڑ بڑا رہے تھے: ’کشمیر۔۔۔ انہیں فیصلہ کرنے کا حق دو۔۔۔ آئین۔۔۔ میں اسے مکمل کروں گا۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ مہاجرین۔۔۔ انہیں ہر ممکن۔۔۔ مدد دو۔۔۔ پاکستان۔۔۔‘
گیارہ ستمبر 1948 کو جناح کو اسٹریچر پر ڈال کر ان کے وائی کنگ طیارے تک پہنچا دیا گیا۔ جب انھیں طیارے تک لے جایا جا رہا تھا تو عملے نے انھیں سلامی دی اور پھر سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جناح نے انتہائی نقاہت کے باوجود فوراً ہی ان کا جواب دیا۔ ان کے ہاتھ کی جنبش سے محسوس ہوتا تھا کہ انہیں بستر مرگ پر بھی
Image
نظم و ضبط کے تقاضوں کا مکمل احساس تھا۔
کوئٹہ سے کراچی تک کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔ اس دوران جناح بڑے بے چین رہے۔ انہیں بار بار آکسیجن دی جاتی رہی، یہ فرض کبھی فاطمہ جناح اور کبھی ڈاکٹر الٰہی بخش ادا کرتے رہے۔
ڈاکٹر مستری، نرس ڈنہم، نیول اے ڈی سی لیفٹیننٹ مظہر احمد اور جناح کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین بھی اسی طیارے میں سوار تھے۔ طیارہ جناح کو لے کر سہ پہر سوا چار بجے ماری پور کے اٸیر پورٹ پر اترا۔ جناح کی ہدایت پر انہیں لینے کے لیے آنے والوں میں نہ حکومت کا کوئی اہم رکن موجود تھا، نہ ہی ضلعی انتظامیہ ان کی آمد سے باخبر تھی۔ اٸیر پورٹ پر ان کا خیر مقدم کرنے والوں میں گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری لیفٹیننٹ کرنل جیفری نولز کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا۔
گورنر جنرل کے سٹاف نے انہیں اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں منتقل کیا۔ فاطمہ جناح اور فلس ڈنہم ان کے ساتھ بیٹھ گئیں جبکہ ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر مستری اور کرنل جیفری جناح کی کیڈیلیک کار میں سوار ہوگئے۔
جناح کی ایمبولینس نے ابھی فقط چار میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اس کا انجن پیٹرول ختم ہونے کے باعث ایک جھٹکے ساتھ بند ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ایمبولینس کے پیچھے پیچھے آنے والی کار، سامان بردار ٹرک اور دوسری گاڑیاں بھی رک گئیں۔
قائد کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ راستے میں بلاوجہ ایک لمحہ بھی ضائع کیا جاتا۔ ڈرائیور 20 منٹ تک انجن کو ٹھیک کرنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ آخر فاطمہ جناح کے حکم پر ملٹری سیکریٹری اپنی کار میں ایک اور ایمبولینس لینے کے لیے روانہ ہوگئے اور ڈاکٹر مستری بھی ان کے ساتھ تھے۔
ادھر ایمبولینس میں شدید حبس کا عالم تھا۔ سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا فاطمہ جناح اور سسٹر ڈنہم باری باری انھیں گتے کے ایک ٹکڑے سے پنکھا جھلتی رہیں۔ ہر لمحہ بڑی اذیت میں گزر رہا تھا۔
ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض بار بار اپنے قائد کی نبض دیکھتے تھے جو بتدریج ڈوب رہی تھی۔ بابائے قوم کو ایمبولینس سے کار میں منتقل کرنا بھی ممکن نہیں تا کیونکہ اسٹریچر کار میں رکھا نہیں جاسکتا تھا اور خود جناح میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کار میں بیٹھ یا لیٹ سکتے۔
اس موقع پر امر انتہا تعجب خیز ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں کسی نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی کہ جناح سوا چار بجے اٸیر پورٹ پر اترنے کے باوجود ابھی تک گورنر جنرل ہاؤس کیوں نہیں پہنچے، ان کا قافلہ کہاں ہے اور ان کی طبیعت کیسی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جناح کی کراچی آمد راز رکھی گئی تھی مگر کیا واقعی حکومت کے اعلیٰ عہدے داران ان کی آمد سے بےخبر تھے؟
خدا خدا کر کے کرنل نولز اور ڈاکٹر مستری ایک دوسری ایمبولینس لے کر واپس آئے۔جناح کو سٹریچر پر ڈال کر اس ایمبولینس میں منتقل کیا گیا اور یوں شام چھ بج کر دس منٹ پر وہ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے۔ اٸیر پورٹ سے رہائش گاہ تک کا نو میل کا فاصلہ جو زیادہ سے
زیادہ پندرہ بیس منٹ میں طے ہوجانا چاہیے تھا تقریباً دو گھنٹے میں طے ہوا۔ یعنی دو گھنٹے کوئٹہ سے کراچی تک اور دو گھنٹے اٸیر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک۔

یہ تکلیف دہ سفر جناح نے اس کسمپرسی کے عالم میں کیا کہ ہماری تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور نہ کوئی توجیہہ۔
گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے کے بعد جناح فقط سوا چار گھنٹے زندہ رہے اور اس دوران وہ تقریباً غنودگی کے عالم میں رہے۔

ڈاکٹروں نے انہیں طاقت کا ایک انجکشن لگایا اور ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول جب انہوں نے ہوش میں آنے پر جناح سے کہا کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے تو انہوں نے آہستگیImage
سے کہا: ’نہیں۔۔۔ میں زندہ نہیں رہوں گا۔‘
ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے لکھا ہے کہ جناح کے آخری الفاظ ’اللہ۔۔۔ پاکستان‘ تھے جبکہ فاطمہ جناح’مائی برادر‘ میں لکھتی ہیں: ’جناح نے دو گھنٹے کی پرسکون اور بے خلل نیند کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں، سر اور آنکھوں سے مجھےاپنے قریب بلایا اور میرےImage
ساتھ بات کرنے کی آخری کوشش کی۔ ان کے لبوں سے سرگوشی کے عالم میں نکلا: فاطی۔۔خدا حافظ۔۔ لاالٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ۔‘ پھر ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔
باباجی کی نماز جنازہ انکے تحریک آزادی کے مشہور ساتھی علامہ شبیراحمد عثمانی رح نےImageپڑھاٸی۔
اللہ باباجی کے درجات بلند فرماۓ اور انکے لگاۓ گٸے اس گلشن پاکستان کو تمام تعصبات سے پاک کرکے ترقی کے منزلوں پہ رواں دواں فرماۓ۔آمین
محمدطاہرسرویا 
Image

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Maryum Aurangzeb Pmln's mother Tahira Aurangzeb's reality

جنرل باجوہ کو مشرف سمجھنا امریکی صدر ٹرمپ کی فاش غلطی ہے۔۔برطانوی تھنک ٹینک

ارض قدس کی مسلمانوں کیلیے اہمیت اور مسجد اقصی اور گنبد صخری کی تاریخ