پردہ کا اسلام میں تصور اور ہمارا معاشرہ
*ہمارا معاشرہ اور دینی احکامات*
دوستو۔۔!
دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ہم سب مسلمانوں پر اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔
ان سے روگردانی ہی کو تو گناہ کہا گیا ہے۔
کون مسلمان ہوگا جو یہ نہیں مانتا کہ اسلام میں پردے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔
بحیثیت مسلمان ہم سب یہ تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ آج کے تیز انٹرنیٹ دور سے کچھ عرصہ پہلے تو پردے کا یہ عالم تھا کہ خواتین تو کیا مرد بھی سر پر پگڑی یا ٹوپی لازمی پہنتے تھے اور ایسا نہ کرنا گناہ اور بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔ اب کیا ہوا کہ مرد و عورت دونوں سر ڈھانپنے اور پردہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو دقیانوسی اور غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔
’’سورہ النور‘‘ کی آیت نمبر31 میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’اور آپؐ مومن عورتوں کو کہہ کیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور ا پنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوند کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا اپنے غلاموں کے یا یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مارکر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے۔
اے مسلمانو۔۔! تم سب کے سب ﷲ کی جانب توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ‘‘۔
اس تفصیلی آیت کے بعد اور کیا وضاحت رہ گئی کہ ہمارے معاشرے میں عورت مارچ ہو اور اس میں میرا جسم میری مرضی جیسے غیر اسلامی اور گناہ بھرے بے ہودہ بینرز کی بھرمار ہو۔
پردے کے بارے میں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ پردہ کرنا صرف عورتوں پر لازم نہیں بلکہ مردوں کو بھی پردہ کرنے حکم دیا گیا ہے۔
’’سورۃ النور‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ا ﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے’’ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں‘‘۔ قرآن کریم میں مختلف مواقع پر سات آیات میں پردے کا حکم دیا گیا ہے۔
اسی طرح پردے سے متعلق 70 سے زائد احادیث میں پردے کی اہمیت اور اس بارے میں احکام خداوندی پر عمل کا حکم دیا گیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو ایک کنارے میں چلنے کا حکم فرمایا ہے۔ اور ایک مرد کو دو عورتوں کے درمیان چلنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ پردے کے بارے میں پہلی آیت پانچ ہجری میں نازل ہوئی جس میں غیرمحرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا کراہتاََبیان فرمایا ہے۔
احادیث میں اس بارے میں بھی احکامات موجود ہیں کہ اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑ جائے تو اپنی نظر کو فوراً پھیر لیا جائے۔
سورہ الاحزاب کی آیت نمبر33اور آیت نمبر59میں عورت کو سر سے پاؤں تک پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بدنظری کو مہلک بیماری اور فتنہ بیان فرمایا ۔ جس کا ترجمہ ہے
’’ اجنبی عورتوں کی تاک جھانک کرنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، اس سے دلوں میں شہوت کا بیج پیدا ہوتا ہے اور فتنہ پیدا ہونے کے لئے یہ ہی کافی ہے“
حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام نے مرد و عورت دونوں کو بے پردگی، فحاشی اور بے حیائی سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔۔
آج جو کچھ ہورہا ہے یہ سب بے پردگی اور فحاشی ہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جس بھی کام سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ، اس میں ہماری ہی بھلائی ہے۔
جنسی بے راہ روی کے پھیلنے کی وجہ ہی بے پردگی و فحاشی ہے۔
کاش کہ ہم ہر طرح سے مومن بن جائیں جیسا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے اور اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
*محمدطاہرسرویا بلاگر*
تبصرے