اسلام میں مندر کی تعمیر اور مسجد کی تخریب
ہمک ماڈل ٹاؤن اسلام آباد کے مضافات میں روات کے قریب واقع ہے وہاں پر مسلک اہل حدیث کی ایک چھوٹی سی پرانی خستہ مسجد تھی۔
چند ماہ قبل کسی اہل حدیث عالم نے مسجد کی تصاویر نکال کر عرب ممالک میں کچھ تنظمیوں کو بھیجیں تو وہاں سے مسجد کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے کا چندہ آگیا۔
اتنی بڑی گرانٹ ملنے پر مولوی صاحبان نے مسجد کے اصل رقبے میں آٹھ گنا اضافہ کرتے ہوئے قریبی زمین پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس طرح کرنے سے عمومًا مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ اور دو تین کواٹرز جگہ مفت میں وصول کر لی جاتی ہے۔
جس سرکاری زمین پر قبضہ کیا گیا ہے وہ زمین اسلام آباد واسا اور سی ڈی اے نے ایک سروے میں نکاسی آب کے ایک نالہ کے لیےچند سال قبل ہی کی منظور کر رکھی تھی اور رواں سال اس نالہ پہ کام شروع ہونا تھا۔
اہل حدیث کی اتنی بڑی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو چند مقامی دیوبندی اور ایک بریلوی مولوی حضرات نے کسی شخص کے ذریعے سی ڈی اے میں شکایت کروا دی کہ یہ مسجد سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنائی جا رہی ہے۔
اس پر بات نہ بنی تو دونوں فرقوں کے مولوی صاحبان نے مقامی آبادی کو بھی ورغلانا شروع کردیا کہ یہاں اہل حدیث کے چند گھر ہیں تو اتنا بڑا مرکز کیوں بنا رہے ہیں؟ نیز پولیس کو بھی شکایات کی گئیں کہ اہل حدیث سرکاری زمین پر قبضہ کر رہے ہیں اور یہاں فرقہ واریت کا خطرہ ہے۔
اس پر سی ڈی اے کا عملہ وہاں گیا اور تا حکم ثانی تعمیر روکنے کا کہہ کر چلا آیا لیکن کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگی اور انہوں نے زوروشور سے تعمیر جاری رکھی بلکہ جلدی جلدی لنٹر بھی ڈال دیا۔
سی ڈی اے نے کئی نوٹسز جاری کیے لیکن کچھ نہ ہوا۔
آخر کار تنگ آکر سی ڈی اے نے یہ کہا کہ آپ باقی زمین پر مسجد کی عمارت بے شک بنالیں لیکن جو یہ نالہ والی جگہ جہاں سے نالہ گزرے گا اسے چھوڑ دیں تاکہ پانی کا نکاس ہوسکے۔ مگر اس پر بھی حضرات ٹس سے مس نہ ہوئے اور عین نالہ والی جگہ پر بھی تعمیر کروا دی۔
جس کے بعد سی ڈی اے کا عملہ پہنچا اور صرف اس جگہ سے زیر تعمیر عمارت گرا دی جہاں سے نالہ گزرنا تھا باقی سرکاری زمین پر ان کا قبضہ برقرار رہنے دیا۔
جس کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا دیا گیا کہ عمران خان نے مندر بنانے کی اجازت دے دی لیکن مسجد گرا رہا ہے۔ شائد عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوگا۔
اس مسجد کا اصل کنٹرول اہلحدیث کے سربراہ اور ن لیگ کے سیاسی ملا ساجد میر اور ابتسام الہی ظہیر ہیں جن کا مقصد واضع ہے کہ اس سازش کے زریعے حکومت کو نشانہ بنانا ہے۔
یہ جھگڑا مختلف فرقہ پرست ٹولوں کا تھا جس میں عمران خان کو مفت میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
اس مسجد کا ہندؤوں کے مندر کی تعمیر سے کوئی لینا دینا نہیں۔
مندر کی تعمیر کے لیے زمین نواز شریف کے دور حکومت میں الاٹ ہوٸی تھی اور اسکا افتتاح خود نواز شریف نے کیا تھا جس کے ڈھنڈورے مریم نواز نے خوب پیٹے تھے کہ ہم نے یہ کام کیا ہے۔ ۔۔
اسکے علاوہ اس پر عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے ، تو 2017 میں الاٹمنٹ اور افتتاح کے موقع پر علما کو یہ چیز کیوں دکھاٸی نہیں دی ؟
انہوں نے اس وقت نوازشریف کو کیوں نہیں روکا؟
کیوں نہیں سمجھایا؟
اب جا کے ہی ان کو یہ چیزیں کیوں دکھاٸی دینے لگ گٸی ہے جو کہ اس وقت دکھاٸی نہیں دیں جب یہ سارے معاملات طے پا چکے تھے ۔۔
اللہ پاکستانیوں کو شعور کی نعمت سے سرفراز فرماۓ ۔۔
مُحَمَّد طاہرسرویا بلاگر
چند ماہ قبل کسی اہل حدیث عالم نے مسجد کی تصاویر نکال کر عرب ممالک میں کچھ تنظمیوں کو بھیجیں تو وہاں سے مسجد کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے کا چندہ آگیا۔
اتنی بڑی گرانٹ ملنے پر مولوی صاحبان نے مسجد کے اصل رقبے میں آٹھ گنا اضافہ کرتے ہوئے قریبی زمین پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس طرح کرنے سے عمومًا مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ اور دو تین کواٹرز جگہ مفت میں وصول کر لی جاتی ہے۔
جس سرکاری زمین پر قبضہ کیا گیا ہے وہ زمین اسلام آباد واسا اور سی ڈی اے نے ایک سروے میں نکاسی آب کے ایک نالہ کے لیےچند سال قبل ہی کی منظور کر رکھی تھی اور رواں سال اس نالہ پہ کام شروع ہونا تھا۔
اہل حدیث کی اتنی بڑی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو چند مقامی دیوبندی اور ایک بریلوی مولوی حضرات نے کسی شخص کے ذریعے سی ڈی اے میں شکایت کروا دی کہ یہ مسجد سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنائی جا رہی ہے۔
اس پر بات نہ بنی تو دونوں فرقوں کے مولوی صاحبان نے مقامی آبادی کو بھی ورغلانا شروع کردیا کہ یہاں اہل حدیث کے چند گھر ہیں تو اتنا بڑا مرکز کیوں بنا رہے ہیں؟ نیز پولیس کو بھی شکایات کی گئیں کہ اہل حدیث سرکاری زمین پر قبضہ کر رہے ہیں اور یہاں فرقہ واریت کا خطرہ ہے۔
اس پر سی ڈی اے کا عملہ وہاں گیا اور تا حکم ثانی تعمیر روکنے کا کہہ کر چلا آیا لیکن کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگی اور انہوں نے زوروشور سے تعمیر جاری رکھی بلکہ جلدی جلدی لنٹر بھی ڈال دیا۔
سی ڈی اے نے کئی نوٹسز جاری کیے لیکن کچھ نہ ہوا۔
آخر کار تنگ آکر سی ڈی اے نے یہ کہا کہ آپ باقی زمین پر مسجد کی عمارت بے شک بنالیں لیکن جو یہ نالہ والی جگہ جہاں سے نالہ گزرے گا اسے چھوڑ دیں تاکہ پانی کا نکاس ہوسکے۔ مگر اس پر بھی حضرات ٹس سے مس نہ ہوئے اور عین نالہ والی جگہ پر بھی تعمیر کروا دی۔
جس کے بعد سی ڈی اے کا عملہ پہنچا اور صرف اس جگہ سے زیر تعمیر عمارت گرا دی جہاں سے نالہ گزرنا تھا باقی سرکاری زمین پر ان کا قبضہ برقرار رہنے دیا۔
جس کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا دیا گیا کہ عمران خان نے مندر بنانے کی اجازت دے دی لیکن مسجد گرا رہا ہے۔ شائد عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوگا۔
اس مسجد کا اصل کنٹرول اہلحدیث کے سربراہ اور ن لیگ کے سیاسی ملا ساجد میر اور ابتسام الہی ظہیر ہیں جن کا مقصد واضع ہے کہ اس سازش کے زریعے حکومت کو نشانہ بنانا ہے۔
یہ جھگڑا مختلف فرقہ پرست ٹولوں کا تھا جس میں عمران خان کو مفت میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
اس مسجد کا ہندؤوں کے مندر کی تعمیر سے کوئی لینا دینا نہیں۔
مندر کی تعمیر کے لیے زمین نواز شریف کے دور حکومت میں الاٹ ہوٸی تھی اور اسکا افتتاح خود نواز شریف نے کیا تھا جس کے ڈھنڈورے مریم نواز نے خوب پیٹے تھے کہ ہم نے یہ کام کیا ہے۔ ۔۔
اسکے علاوہ اس پر عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے ، تو 2017 میں الاٹمنٹ اور افتتاح کے موقع پر علما کو یہ چیز کیوں دکھاٸی نہیں دی ؟
انہوں نے اس وقت نوازشریف کو کیوں نہیں روکا؟
کیوں نہیں سمجھایا؟
اب جا کے ہی ان کو یہ چیزیں کیوں دکھاٸی دینے لگ گٸی ہے جو کہ اس وقت دکھاٸی نہیں دیں جب یہ سارے معاملات طے پا چکے تھے ۔۔
اللہ پاکستانیوں کو شعور کی نعمت سے سرفراز فرماۓ ۔۔
مُحَمَّد طاہرسرویا بلاگر
تبصرے